طنز و مزاحمضامین

’’احتیاط علاج سے بہتر ہے !‘‘

’’احتیاط کا ایک اونس علاج کے ایک پاؤنڈ سے کہیں بہتر ہے۔‘‘ یہ خوبصورت بات تقریباًڈھائی سو سال قبل بینجمن فرینکلن نے کہی تھی اور آج تک درست ثابت ہو رہی ہے۔ احتیاط کسی بھی مرض کو پھیلنے سے قبل ہی روک لیتی ہے جبکہ علاج اس کا حل ہے یہی وجہ ہے کہ احتیاط کو علاج سے بہتر گردانا گیا ہے... ہم نے احتیاط علی محتاط کوتک کھانے اور سونے کے معاملے میں احتیاط برتتے نہیں دیکھا ، لہٰذااکثر وہ دواخانوں کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں۔لیکن آج ہم احتیاط کم کرتے ہیں اور علاج زیادہ، یہی وجہ ہے کہ ہر دواخانہ آبادہے جبکہ میڈیکل شاپس پررات دیر گئے تک بھی جم غفیر دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے وہاں لنگر بٹ رہا ہے۔

حمید عادل

’’احتیاط کا ایک اونس علاج کے ایک پاؤنڈ سے کہیں بہتر ہے۔‘‘ یہ خوبصورت بات تقریباًڈھائی سو سال قبل بینجمن فرینکلن نے کہی تھی اور آج تک درست ثابت ہو رہی ہے۔ احتیاط کسی بھی مرض کو پھیلنے سے قبل ہی روک لیتی ہے جبکہ علاج اس کا حل ہے یہی وجہ ہے کہ احتیاط کو علاج سے بہتر گردانا گیا ہے… ہم نے احتیاط علی محتاط کوتک کھانے اور سونے کے معاملے میں احتیاط برتتے نہیں دیکھا ، لہٰذااکثر وہ دواخانوں کے چکر کاٹتے نظر آتے ہیں۔لیکن آج ہم احتیاط کم کرتے ہیں اور علاج زیادہ، یہی وجہ ہے کہ ہر دواخانہ آبادہے جبکہ میڈیکل شاپس پررات دیر گئے تک بھی جم غفیر دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے وہاں لنگر بٹ رہا ہے۔
آج سے چالیس سال قبل بھی بیماریاں تھیں اور مریض بھی اور ہاں! ڈاکٹرس بھی تھے لیکن علاج اس قدرمہنگا نہ تھا،وجہ تھی ڈاکٹرس کا خدمت کا جذبہ…یہ وہ دور تھا جب بڑے سے بڑا ڈاکٹر بھی گھر آکر علاج کیا کرتاتھا۔ آج حالات یکسر بدل چکے ہیں ،کسی مشہور ڈاکٹرسے رجوع ہونے کے لیے مریض یا پھر مریض کے کسی رشتے دار کو نہایت صبر آزما مرحلے سے ہوکر گزرنا پڑتاہے۔اپوائنٹ منٹ کا ملنا کڑی مشقت کے بعد کسی ایوارڈ کے ملنے سے کم نہیں ہوتاجبکہ ڈاکٹر کے دیدار کے لیے تین تا چار گھنٹے انتظار کرتے کرتے خیال آتاہے کہ انتظار میں کہیںانتقال نہ ہوجائے۔حال ہی میںجب ہم بیمار ہوئے تو ہمارے ساتھ گھوڑے خاں تھے، دواخانے میں جان لیوا انتظار اورہمارے مختلف معائنوں کودیکھ کروہ چکرا کر گر پڑے ، وہ آئے تو تھے ہمارا خیال رکھنے کے لیے لیکن ہمیں ان کا خیال رکھنا پڑاتھا،ہمیں ان سے بار بار پوچھنا پڑرہا تھا: اب کیسے ہویار؟ اب کیسا Feelکررہے ہو بھائی؟ خیریت تو ہے ناں بھائی؟
آج مرض اور مریض زیادہ ہوگئے ہیں تو مختلف طریقہ علاج بھی اپنا اپنا رنگ دکھارہے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ کونسا طریقہ علاج اپنایا جائے۔کوئی کہتاہے کہ ہومیو پیتھی بہتر ہے ،کوئی کہتا ہے ایلوپیتھی بہتر ہے، کوئی کہتا ہے یونانی بہتر ہے تو کوئی کہتا ہے آیورویدک بہتر ہے …اور بھی کئی طریقہ علاج ہیں۔’’پھلوں سے علاج‘‘ ،’’ سبزیوں سے علاج‘‘ ، ’’ غذا سے علاج‘‘ حتیٰ کہ ’’ پانی سے علاج‘‘ جیسے کئی ایک عنوانات آپ کی نگاہوں سے یقیناگزرچکے ہوں گے لیکن طنزومزاح کے نامور شاعر دلاور فگار نے ’’ موسیقی سے علاج‘‘ کا شگوفہ چھوڑ کرمشاعرہ لوٹ لیا تھا،اس لاجواب نظم کے کچھ اشعارآپ کی نذر ہیں:
اک محقق نے نئی تحقیق فرما دی ہے آج
فن موسیقی سے بھی ممکن ہے انسانی علاج
نامور قوال پورے ڈاکٹر ہو جائیں گے
صرف سازندے جو ہیں کمپاؤنڈر ہو جائیں گے
تھرمامیٹر کی جگہ منہ میں لگا کر بانسری
ڈاکٹر دیکھے گا کیا حالت ہے اب بیمار کی
پڑ گئے معجون میں کیڑے خمیرہ سڑ گیا
بوعلی سینا کی امیدوں پہ پانی پڑ گیا
قبض کے مارے ہوئے بیمار کو کر دو خبر
ایک ٹھمری میں ہے، اطریفل زمانی کا اثر
اب تو اخباروں میں شائع ہوں گے ایسے اشتہار
جملہ امراض خصوصی کی دوا طبلہ ستار
جملہ امراض خبیثہ کی دوائے کار گر
نغمہ ساحر بہ آواز لتا منگیشکر
کیا ضروری ہے کہ پیچش کی دوا ہو اسپغول
ادویہ تو اور بھی ہیں بین باجا بینڈ ڈھول
اس طرح نسخہ لکھے گا چارہ ساز نبض بیں
دادرا دس بارہ، ٹھمری دو عدد، ایک بھیروی
آج بڑا ڈاکٹروہی کہلاتا ہے جو مریض کو زیادہ سے زیادہ ڈیاگناسٹک سنٹر بھیجے…وہ وقت گیا جب ڈاکٹرس اور حکماء محض نبض پکڑ کر ، آنکھوں میں جھانک کر یا زبان کا دیدار کرکے یا پھر قارورہ کو گھور کرمریض اور مرض کی کیفیت تاڑلیا کرتے تھے اور کسی ڈیاگناسٹک سنٹر جانے کی نوبت ہی نہ آتی تھی یا پھر بہت کم آتی تھی۔ آج دوا سے زیادہ ڈاکٹر کی فیس ہے اور ڈاکٹر کی فیس سے زیادہ رقم ڈیاگناسٹک سنٹرس کی نذرہوکر رہ جاتی ہے۔ ہماری اکلوتی شریک حیات پھول بانو اس وقت شدید صدمہ سے دوچار ہوجاتی ہیں جب بعدمعائنہ رپورٹ نارمل آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہزاروں روپئے معائنوں پر خرچ ہوگئے، ایسے معائنے کا بھلا کیا فائدہ جس میں کوئی بیماری ہی ظاہر نہ ہو۔جہاں تک ہمارا معاملہ ہے، ہم معائنے سے پہلے اور معائنے کے بعد مسلسل گڑگڑا کر دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے خدا!رپورٹ نارمل آجائے۔ جب جب ہمارے ہاتھ میں ڈاکٹر، معائنوں کا حکم نامہ تھماتا ہے ، ہم پہلے تو سوچتے ہیں کہ ہم ہرگز معائنے نہیں کروائیں گے، کیونکہ ہم نے سن رکھا ہے کہ ڈیاگناسٹک سنٹرس سے ڈاکٹر کے بڑے گہرے مراسم ہوا کرتے ہیں اور وہ ان مراسم کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اپنے مریضوں کو وہاں بار باربھیجا کرتا ہے لیکن جناب ! گھر پہنچتے پہنچتے ہمارے خیالات میں نمایاں تبدیلی آجاتی ہے اور یہ خیال آ آکر ستاتا ہے کہ کسے معلوم ہمارے اندر کوئی پراسراربیماری پنپ رہی ہو…اس خیال کے آتے ہی ہم ’’ دیر نہ ہوجائے کہیں دیر نہ ہوجائے‘‘ کا نعرہ مار کر ڈیاگناسٹک سنٹر پہنچ جاتے ہیں۔ خون کھینچنے کی اذیت کے خوف سے عموماًہمارا خون خشک ہوجایا کرتا ہے ،اس قدر خشک کہ سرینج میں خون کی بجائے بسا اوقات سرخ رنگت کا پاوڈر نمودار ہوتا ہے۔ یوں توخوف کے مارے خون خشک ہوجانے کی بات محاورتاً کہی جاتی ہے مگر اب ایک نئی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ خوف و دہشت کے عالم میں محاورتاً نہیں حقیقت میں بھی خون خشک ہوجاتا ہے۔یہ تحقیق ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے سائنس دانوں نے کی ہے۔ سائنس دانوں کے بیان کے مطابق ڈراؤنی فلمیں دیکھنے کے دوران خون میں ایک پروٹین جسے فیکٹر VIII کہا جاتا ہے،اس کی مقدار بڑھنے لگتی ہے، یہ پروٹین خون کو گاڑھا کرکے شریانوں میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔ گاڑھا ہونے کی صورت میں خون کی مقدار میں کمی واقع ہوجاتی ہے، دوسرے الفاظ میں خون خشک ہوجاتا ہے۔یوں ڈراؤنی فلمیں ناظرین کو اسپتال بھی پہنچاسکتی ہیں، یہ پہلا موقع ہے جب سائنس دانوں نے کسی محاورے کو تحقیق کی بنیاد بنایا ہے۔خون سے متعلق ایک اور محاورہ ’’ خون جلانا‘‘ زبان زدعام ہے۔ اب یہ بھی محض محاورہ نہیں رہا ،ہمیںاس بات کا اُس وقت پتا چلا جب مشکوک حیدرآبادی اسیر ِبواسیر ہوئے اور خون ان کے جسم سے ایسے غائب ہوا ،جیسے سیاسی پس منظر سے کانگریس… لہٰذا انہیں خون چڑھانے کی نوبت آگئی ، خون کی چار بوتلیں چڑھائی گئیں لیکن خون کی مقدار میں محض دو پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ ڈاکٹر نے ہم سے پوچھا: کیا یہ جھٹ خفا ہیں؟ہم نے جھٹ کہا : ہاں…تو ڈاکٹر نے دو ٹوک انداز میں کہا: پہلے ان سے کہیے کہ یہ ہشاش بشاش رہیںورنہ ہم چاہے کتناہی خون چڑھائیں سب جل جائے گا، غصے میں آدمی کا خون جلتا ہے جناب!‘‘لیکن اس کو کیا کیجیے کہ آج کے دور میں ہر حساس آدمی کا خون قدم قدم پر جلتا ہے،اس پس منظر میں پاکستان کے معروف ڈاکٹرصابر حسین خان کا قول ملاحظہ فرمائیں:
’’زندگی کی حرارتوں سے خود کو زندہ رکھنے کے لیے اپنا خون جلانا پڑتا ہے اور دل کو زندہ اور توانا رکھنے کے لیے اوروں کا دل رکھنا پڑتا ہے۔‘‘
خیر! بات ہورہی تھی ڈاکٹرس کی…ہنس مکھ شاہ ، جو بات بات پر ہنستے ہیں،نہایت سنجیدگی سے فرماتے ہیں ’’ کل کے اور آج کے ڈاکٹرس میںنمایاں فرق پایا جاتا ہے خاں…ماضی کے ڈاکٹرس کو مریض کے چہرے پر بحالی دیکھ کر خوشی ہوا کرتی تھی اور آج کے بیشترڈاکٹرس کواپنی جیب میں نوٹ دیکھ کرخوشی ہوتی ہے۔کل مریض، ڈاکٹرس کی ہدایت پر زبان باہر نکالا کرتے تھے اور آج دواخانے کا بل دیکھ کر مریض کے ساتھ ساتھ اس کے قریبی رشتے داروں کی زبانیں صدمے سے خود بخودباہر آجاتی ہیں۔ کلینک پہنچنے میںڈاکٹر سے چاہے کتنی ہی تاخیر ہوجائے ،کوئی سوال نہیں کرسکتا لیکن مریض کو بہر صورت وقت پر رہنا ہے۔اگربے ہنگم ٹریفک ،موسم یا پھر کسی اور وجہ سے کلینک پہنچنے میں مریض کو تاخیر ہوجائے توپھراسے صفائی دینی پڑتی ہے، گڑگڑانا پڑتا ہے تب کہیں اسے ڈاکٹر سے ملنے کی اجازت کچھ اس طرح دی جاتی ہے جیسے اس پر احسان عظیم کیا جارہاہے۔ایک عام آدمی کی مجبوریوں کو ایر کنڈیشنڈ کیبن میں بیٹھا کوئی بے حس ڈاکٹر بھلا کیا سمجھ سکتا ہے؟وہ تو زیادہ سے زیادہ مریضوں کودیکھ کر زیادہ سے زیادہ نوٹ بٹورنا چاہتا ہے۔‘‘ہنس مکھ شاہ کی باتیں ہنسی مذاق کی باتیں نہیں بلکہ دل کوچھو جانے والی باتیں ہیں۔
ڈاکٹروں کی لاپرواہیوں کے کئی ایک قصے مشہور ہیں،کبھی سنتے ہیں کہ کسی ڈاکٹر نے متاثرہ دانت کی بجائے صحت مند دانت کو اکھاڑ پھینکا، سرجری کے دوران پیٹ میں قینچی، گھڑی یا پھر رومال چھوڑ دینے سے متعلق کئی ایک لطائف نماواقعات پڑھنے کو ملتے ہیں… کچھ مہینے قبل ہم نے پڑھا تھا کہ پاکستان کا کوئی قابل ڈاکٹر آپریشن کے بعد خاتون کے پیٹ میں سرجری کا سامان بھول گیا اور خاتون کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوگیا۔پچھلے دنوں بھیونڈی کے ایک ڈاکٹر کی جانب سے خاتون کے آپریشن کے دوران فلمبندی اور پھر اسے سوشیل میڈیا پر پھیلانے کی افسوسناک خبر اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔برصغیر ہندو پاک میں ڈاکٹرس کی لاپرواہیوں کا کوئی خاص نوٹ نہیں لیا جاتا لیکن امریکہ میں حالات مختلف ہیں۔ ایک امریکی خاتون کی سرجری ٹھیک سے نہیں ہوئی تو اس کی شادی شدہ زندگی تباہ ہوکر رہ گئی۔ خاتون نے عدالت میں اسپتال کے خلاف مقدمہ دائر کیا تو اسے ہرجانے کے طور پر پچاس کروڑ روپئے ملے۔ گھوڑے خاں اس خبر کو پڑھ کرہنہناکر کہنے لگے: کاش !وہ خاتون میں ہوتا!
یوں تو امریکی بربریت ساری دنیا میں مشہور ہے لیکن وہاں کا قانون بڑا سخت ہے، کسی کو کسی سے کوئی نقصان پہنچتا ہے تو متاثرہ شخص کواس قدر ہرجانہ ملتا ہے کہ آدمی اپنا درد بھول جائے!وہ امریکہ ہے اور یہ ہندوستان جہاںکے بیشترمعروف ڈاکٹرس اپنی بے پناہ مصروفیت کی بدولت کبھی ذہنی تناؤ کا شکار ہوجاتے ہیں تو پھراپنا سارا نزلہ مریض پر اتارنے سے تک باز نہیں آتے اور کچھ کا کچھ نسخہ بھی تجویز کربیٹھتے ہیں۔ موقع کی مناسبت سے ہمیں فلم ’’ چھومنتر ‘‘کا ایک نغمہ یاد آ رہاہے،جو خالص عشقیہ ہے اور جسے مرض عشق میں مبتلا جانی واکرنے اپنی معشوقہ بلکہ طبیبہ شیاماکے روبرو لہک لہک کر گنگنایا تھا اور آج حالات کا ماراکوئی بیمار، کسی شاطرڈاکٹر (جو صرف اور صرف دولت کا عاشق ہو) کے روبرو تڑپ تڑپ کر گنگنانے پر مجبور دکھائی دیتا ہے:
غریب جان کے ہم کو نہ تم دغا دینا
تم ہی نے درد دیا ہے تم ہی دوا دینا
مریض دوائی سے زیادہ ڈاکٹر کی تسلی سے ٹھیک ہوا کرتا ہے لیکن شہر کے کچھ ایسے نامور ڈاکٹرس بھی ہیں جو مریض کی بپتا تفصیلی طور پرسنے بغیر ہی نسخہ تجویز کر دیتے ہیں اور پھر ان کے بٹن دباتے ہی فضا میں ایک نسوانی آواز گونجتی ہے :Next patient Please
اس آواز کے ابھرنے کے بعداگر مریض ڈاکٹر سے کچھ عرض کرنا بھی چاہے تو ڈاکٹر کا مددگار مریض کو باہر کا راستہ دکھاتا ہے۔ ہم نے شہر کے ایک نامور کلینک میں ساڑھے چار گھنٹے گزارے، ڈاکٹری فیس معہ آٹو کا کرایہ آٹھ سو روپئے خرچ ہوگئے ، بدلے میں دواؤں کی فہرست پر مبنی پرچی تو ہمیں ملی لیکن تسلی نہیں ملی،سو ہم نے وہ دوائی خریدنا ہی مناسب نہیں سمجھا اور یوںدوا کے بدلے ہم آٹھ سو روپئے کا درد لیے دواخانے سے باہر نکل آئے اور سوچنے لگے کہ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ’’ احتیاط ، علاج سے بہتر ہے۔‘‘ اور بینجمن فرینکلن کا یہ کہا بھی اپنے آپ میں بڑی گہرائی رکھتا ہے کہ:“An ounce of prevention is ’’worth a pound of cure
۰۰۰٭٭٭۰۰۰