ہاتھ ملانے کے شوقین لوگ

عطاء الحق قاسمی
ہاتھ ملانا اگر چہ فن نہیں‘مگر اس میں بہت سے ”صاحب اسلوب“لوگ موجود ہیں۔مثلاً کچھ لوگ ہاتھ ملانے کے بجائے اپنی ڈھیلی ڈھالی انگلیاں نہایت بے دلی سے آپ کے ہاتھ میں یوں تھمادیتے ہیں کہ ان نیم جاں انگلیوں پر صرف Handle with Careکا TABلگانے کی کسر رہ جاتی ہے۔میں نے جب کبھی ایسے ہاتھ سے ہاتھ ملایا ہے ،مجھے یوں لگا ہے جیسے کسی نے مرا ہوا چوہا میرے ہاتھ میں تھمادیا ہو۔میں اس متلادینے والے اظہار پر معذرت خواہ ہوں، مگر کیا کیا جائے کہ ایسے لوگ ایسا ہاتھ ملاتے وقت معذرت خواہ بھی نہیں ہوتے۔
ہاتھ ملانے والوں کی دوسری قسم ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہوں نے اسی ہاتھ میں سگریٹ کی ڈبیا اور ماچس تھامی ہوتی ہے۔چنانچہ وہ پورے ہاتھ کے بجائے صرف انگشت شہادت سے ”ہاتھ“ملاتے ہیں۔ میرے ایک دوست کو اس صورت میں بہت جھنجھلاہٹ ہوتی ہے اور وہ مجھ سے اکثر استفسار کرتا ہے کہ انگشتِ شہادت سے ہاتھ ملانے والوں کو کس طرح شہادت کی سعادت سے بہرہ ور کیا جا سکتاہے؟
ان دو قسموں کے علاوہ ہاتھ ملانے والوں کی ایک قسم یکسر جداگانہ بھی ہے۔یہ لوگ کچھ اتنے جوش وخروش سے ہاتھ ملاتے ہیں کہ ایسے مواقع پر باقاعدہ ”وے چھڈ میری بینی نہ مروڑ“گانے کوجی چاہتا ہے۔
ہاتھ ملانے والوں کی ایک”نسل“اور بھی ہے اور یہ نسل ان لوگوں پر مشتمل ہے جو غیرمعمولی مصروفیت کے باوجود ہاتھ ملانے کی وضع داری نبھاتے ہیں۔مثلاً اگر یہ تیزی سے کاغذ پر کچھ لکھنے میں مشغول ہیں اور ان کے پاس اتنا وقت بھی نہیں کہ وہ قلم ہاتھ سے رکھ کر آپ سے ہاتھ ملا سکیں تو وہ ”مصافحے“کے لیے اپناقلم آگے بڑھا دیتے ہیں، قلم اگرقیمتی ہے تو پھر میرے نزدیک ایسے مصافحہ میں اور پھر اس کے فوراً بعد وہاں سے رفو چکر ہونے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔اس طرح کچھ لوگ کھانا کھانے کے دوران بھی اگر کوئی ہاتھ ملانے والا آجائے تو اسے مایوس نہیں کرتے۔چنانچہ وہ مٹھی والا حصہ اس کے ہاتھ کی انگلیوں سے مس کرکے دوبارہ مصروفِ طعام ہو جاتے ہیں۔کئی کھاناکھانے کے بعد ہاتھ دھونے کے مرحلے میں ہوتے ہیں اور دوسرے کے ہاتھ میں گیلے ہاتھ دینے کو خلاف آداب جان کر اپنی خشک کہنی اس کے ہاتھ میں تھمادیتے ہیں کہ تم بھی کیا یاد کرو گے‘لوعیش کرو۔
متذکرہ نوع بلکہ ”انواع واقسام“کے ہاتھ ملانے والوں کے علاوہ ہمارے درمیان ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو سرے سے اس قسم کا جھنجھٹ ہی نہیں پا لتا۔یہ صاحبانِ اقتدار کا طبقہ ہے اور اس طبقے کے لوگ اپنی مثالی تربیت کے طفیل یہ نکتہ پا گئے ہیں کہ ہماشما سے ہاتھ نہیں ملانا چاہیے کہ اس سے گونا گوں مسائل پیدا ہوتے ہیں چنانچہ جو آداب ِشاہی سے واقف ہیں وہ بوقت ِ ملاقات اپنا ہاتھ پیشانی پر اور اپنی پیشانی فرش تک لے جاتے ہیں اور دل کی مرادیں پاتے ہیں، مگر وہ جو نا واقف ِ آداب ہیں،بڑی ڈھٹائی کے ساتھ میز کے اس سرے سے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیتے ہیں جو بمشکل ان کی میز کے چوتھائی حصہ تک پہنچ پاتا ہے اور یوں فضا ہی میں معلق رہ جاتا ہے،جس طرح آوازیں فضاﺅں میں موجود رہتی ہیں اور کبھی ضائع نہیں ہوتیں، اسی طرح اگر ان صاحبان ِ اقتدارکی طرف بڑھنے والے ہاتھ بھی فضاﺅں میں محفوظ رہ جائیں اور انہیں کسی خوردبین کی مدد سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گاکہ کروڑوں ہاتھ ان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
مگر سچ پوچھیں تو یہ سارے ہاتھ ملانے والے ایک طرف اور دوستی کا وہ پر جوش مصافحہ ایک طرف جس کی تصویرگئے وقتوں میں آپ نے بھی امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ملنے والے امدادی سامان پر ضرور دیکھی ہو گی۔اس میں امریکی ہاتھ امریکی جھنڈے اور پاکستانی ہاتھ پاکستانی جھنڈے کے خدوخال سے واضح کیا گیا ہوتا تھا اور یہ دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں پیوست نظر آتے۔یہ تصویر دیکھ کر احساس ہوتا کہ پوری دنیا میں امریکہ سے زیادہ پاکستان کا اورکوئی دوست نہیں ہے۔میرا ذاتی خیال بھی یہی ہے چنانچہ یہ تصویر دیکھ کر میرے دل میں امریکہ کے لیے محبت کا جذبہ مزید ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔ان لمحوں میں،میں سب کچھ بھول جاتا حتیٰ کہ وہ مصرعہ بھی جو کچھ یوں ہے کہ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
٭٭٭