یوسف ناظم
آدمی کو بگڑتے دیر نہیں لگتی۔ اچھا بھلا آدمی دیکھتے دیکھتے شوہر بن جاتا ہے۔ یہ سب قسمت کے کھیل ہوتے ہیں اور اس معاملے میں سب کی قسمت تقریباً یکساں ہوتی ہے۔ شوہر کی لکیر سب کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور ہاتھ کی لکیروں میں یہی ایک لکیر ہوتی ہے جس سے سب فقیر ہوتے ہیں۔ شوہر بننا کوئی معیوب فعل نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو اس خرابی میں بھی تعمیر کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان شوہروں کی زندگی بہت اچھی گزرتی ہے جنھیں کبھی یہ یاد نہ آئے کہ وہ شوہر ہیں۔ ہمارے دوست ابوالفصاحت عالم قدر نے اسی طرح زندگی گزاری۔ ان کی شادی کو بارہ سال تو ہو ہی گئے ہوں گے لیکن کیا مجال جو ان بارہ سالوں میں انھیں ایک لمحے کے لیے بھی یہ گمان گزرا ہو کہ وہ شوہر ہیں۔ ہماری ان سے بہت گہری دوستی ہے۔ یہ ہمارے اسکول کے ساتھی ہیں۔ اسکول کے نام سے کہیں آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ انھوں نے اسکول میں کچھ پڑھا بھی ہے۔ یہ تو صرف اخلاقاً اسکول آتے تھے۔ شروع ہی سے بڑے نصیب والے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی خوش قسمتی تو یہ ہے کہ ان کے والد نے زیادہ عمر نہیں پائی۔ یہی رہے ہوں گے کوئی ۴۵-۴۶سال کے جب ان کا انتقال ہوگیا اور ابوالفصاحت ان کی جائیداد کے تنہا وارث قرار پائے، ان کے والد مرحوم جن کا نام شہنشاہ بیگ تھا، کی دو بیویوں نے ان کی زندگی ہی میں ان سے علیحدگی حاصل کرلی تھیں اور اس طرح شوہر کا داغ مفارقت سہنے سے بچ گئی تھیں۔ جاتے وقت مہر کی ایک موٹی رقم کے علاوہ زیور گہنے چاندی کے برتن اور کچھ الکٹرانک سامان ساتھ لیتی گئیں لیکن شہنشاہ بیگ کی پیشانی پر شکن تک نہیں آئی۔ ان کی پیشانی پر شکن نہ آنے کی دو وجہیں تھیں۔ ایک تو یہ ان کی پیشانی پر یونہی بل پڑے رہتے تھے اور دوسرے یہ کہ اللہ کا دیا ان کے پاس اتنا تھاکہ انھیں پتہ ہی نہیں چلاکہ ان کی دو بیویاں کیا ساتھ لے گئیں۔ ابوالفصاحت عالم، شہنشاہ بیگ کی اولین بیوی کی اولاد تھے جو ان دونوں بیویوں سے پہلے ان کے نکاح میں آئی تھیں۔ نیک خاتون تھیں اس لئے زیادہ دن زندہ نہیں رہیں۔ عالم قدر کی ولادت کے بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا اور اسی لیے شہنشاہ بیگ نے یکے بعد دیگرے دو اور شادیاں کی تھیں کہ خود کا اپنا دل بھی بہلا رہے اور عالم قدر کی تھوڑی بہت تربیت بھی ہوتی رہے، ان دونوں بیویوں کو انھوں نے کوئی خاص زحمت بھی نہیں دی اور اپنی مساعی جمیلہ سے انھیں بے اولاد ہی رہنے دیا۔ ان میں سے ایک بیوی کا نام غالباً جمیلہ تھا بھی لیکن یہ سب باتیں میں آپ کو کیوں بتارہا ہوں۔ بات تو صرف یہی کہنی ہے کہ ابوالفصاحت عالم قدر کس قسم کے شوہر ہیں۔ ان کے آبا واجداد کے متعلق کچھ کہنا اس لیے ضروری ہوگیا کہ ان کا پسِ منظر آپ کے پیش نظر آسکے۔ شہنشاہ بیگ بہت زیادہ متین آدمی تھے۔ ہنسنا تو دور رہا مسکراتے بھی نہیں تھے۔ لوگ منتظر رہتے تھے کہ شاید عید بقرعید کے موقعے پر مسکرائیں گے لیکن کئی عیدیں یونہی گزر جائیں۔ ایک بقرعید پر جب وہ مسکرائے تھے تو کہا جاتا ہے کہ کئی سال تک اس کا چرچا رہا اور لوگ حیرت زدہ رہے۔ ان کی دو بیویوں کی علیحدگی کی وجہ بھی یہی بیان کی جاتی ہے۔ نہیں نہیں ان کے مسکرانے کی وجہ سے وہ علیحدہ نہیں ہوئیں بلکہ اپنے کمانڈر اِن چیف کی متانت ان سے برداشت نہیں ہوسکی۔ شہنشاہ بیگ شوہر کی حیثیت سے بالکل کمانڈر ان چیف تھے۔ گھر میں ہمیشہ مارشل لا کی کیفیت رہتی تھی۔ ہمارے دوست ابوالفصاحت کے اسکول آنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ ان کے ساتھ ایک ملازم ایک بڑا سا توشہ دان اور ایک صراحی ضرور آیا کرتی تھی۔ جب یہ میٹرک میں پہنچے تو شہنشاہ بیگ نے ان کی شادی کردی۔ میٹرک میں پہنچنے سے پہلے ہی یہ شادی کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور آدمی کسی اور قابل ہو یا نہ ہو شادی کے قابل تو ہوتا ہی ہے۔ شہنشاہ بیگ کو اپنے بیٹے کی طرف سے کوئی خدشہ نہیں تھا لیکن اتنے بڑے گھر میں بہرحال ایک خاتون کی ضرورت تھی۔ ہم ان کی شادی میں بھی شریک ہوئے اور چند ہی دن بعد ہم نے دیکھا کہ ابوالفصاحت عالم قدر کے رگ و ریشہ میں بیوی سرایت کرگئی ہیں۔ یہ بالکل ریشہ خطمی ہوکر رہ گئے تھے اور خود ان کے والد شہنشاہ بیگ میں حیرتناک تبدیلی پیدا ہوگئی تھی۔ وہ مسکرانے لگے تھے۔ دلہن نے سب سے پہلے تو عالم قدر کو اسکول سے چھٹی دلا دی یہ کہہ کر کہ میرے بھولو شاہ! شادی شدہ لوگ مدرسے میں پڑھنے نہیں پڑھانے جایا کرتے ہیں۔ پھر ان سے کہاصبح اٹھ کر سب سے پہلے نہایا کرو، شیو بھی روز کیا کرو۔ خود نہیں کر سکتے تو کسی کا راتب لگوالو۔ دوپہر میں جتنا کھانا کھاتے ہو اگر اتنا ہی کھانا ہے تو ناشتہ مت کیا کرو۔ شطرنج کھیلنی ہے تو صرف ان دوست کو شام کے وقت بلایا کرو، دوست کا اشارہ ہماری طرف تھا اور اسی لئے ان کی دلہن ہمیں بہت پسند آئیں۔ لہجہ ذرا سخت تھا لیکن صورت شکل کے معاملے میں ان کے خلاف کوئی لفظ نہیں کہا جاسکتا۔ صورت سے ملازم ضرور خوف کھاتے تھے لیکن اس کی وجہ وہ دبدبہ تھا جو ان کے چہرے کا ایک حصہ تھا۔ ملازموں کے لئے انھوں نے ایک یونیفارم بھی مقرر کردیا تھا کہ اپنے شوہر کو پہچاننے میں دقت نہ ہو۔ معلوم نہیں ہمارے آنے جانے پر انھیں کیوں کوئی اعتراض نہیں ہوا۔ شاید وہ جانتی تھیں کہ ان کے میاں صرف اس وقت کھل کر سانس لیتے ہیں جب وہ ہمارے ساتھ ہوں۔ دلہن کی موجودگی میں ان کی سانس اکھڑی اکھڑی رہتی تھی۔ ان کا نام بھی ابوالفصاحت دلہن ہی نے رکھا تھا۔ ابوالفصاحت کے سسرالی عزیز و اقارب اسی گھر میں منتقل ہوگئے تھے اور دلہن کو شادی کے بعد کبھی میکے جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اتفاق سے دلہن کے دوبھائی، ابوالفصاحت کے ہم جسامت تھے۔ یہ دونوں ابوالفصاحت ہی کے کپڑے پہنتے تھے۔ کہتے تھے کہ بڑے بابرکت کپڑے ہیں جب بھی ابوالفصاحت کے جسم پر کوئی نیا کپڑا دیکھتے ان کے برادر نسبتی کو ضرور پسند آجاتا اور دلہن کے کہنے سے ابوالفصاحت اسے فوراً اتارکر برادر نسبتی کی خدمت میں اس طرح پیش کرتے جیسے سکندر اعظم نے پورس کو اپنی تلوار پیش کی تھی۔
نہیں نہیں یہ مثال ٹھیک نہیں ہے، وہ محمد شاہ اور نادر شاہ کی مثال مناسب معلوم ہوتی ہے۔ ابوالفصاحت اپنا نیا زری کے کام کا کرتا اتار کر اپنے برادر نسبتی کی خدمت میں اس طرح پیش کرتے جس طرح محمد شاہ نے اپنی پگڑی جس میں کوہ نور کا ہیرا چھپا تھا، اتارکر نادر شاہ کے سرپر رکھ دی تھی۔ سر پر رکھی تھی یا نہیں ٹھیک سے کہا نہیں جاسکتا لیکن وہ پگڑی نادر شاہ کے پاس پہنچ گئی تھی۔
ابوالفصاحت عالم قدر کو خود کے شوہر ہونے کی بات اس لیے بھی کبھی یاد نہیں آئی کہ شہنشاہ بیگ کے انتقال کے بعد ان کے اتنے عزیز و اقارب پیدا ہوگئے تھے کہ ان سب سے نمٹنا ان کے لیے آسان بات نہیں تھی۔ یہ کام دلہن نے کیا۔ باقی جو بچا دلہن کے بھائیوں نے کیا۔ دلہن کے بھائیوں کو دیکھنے کی تاب بہت کم لوگوں میں تھی۔ ابوالفصاحت کے گھر منتقل ہو جانے کے بعد ان لوگوں کی صحت اور تندرستی میں غضب کی ترقی ہوئی تھی۔ اچھا ہوا کہ ان دونوں بھائیوں میں خون کے رشتے کے علاوہ بھائی چارہ بھی بہت تھا ورنہ اگر کبھی ابو الفصاحت کے نئے کرتے یا پاجامے کے لئے ان دونوں میں ہاتھا پائی ہوجاتی تو گھر کی بنیادیں ہل جاتیں۔ اتنے طاقتور تو دونوں تھے ہی۔ انھیں دیکھ کر ہی شہنشاہ بیگ کے خود ساختہ اور نوساختہ رشتہ دار میلوں دور بھاگ گئے اور عدالت جانے کی ان میں ہمت نہیں ہوئی۔ ابوالفصاحت کے ان دونوں برادران نسبتی سے ہماری بھی بہت دوستی ہوگئی کیونکہ جب بھی ہم شطرنج کھیلنے بیٹھتے یہ دونوں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک ضرور آ موجود ہوتا، ابوالفصاحت کو نئی نئی چالیں بتاتا اور ان کے گھوڑے ڈھائی کے بجائے ساڑھے تین گھر چلتے لیکن ہماری کبھی اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ ہم ان پر برادر نسبتی کی موجودگی میں اس گھوڑے کی اس زبردست چھلانگ پر اسے ٹوک سکتے۔ ان کے برادر نسبتی میں اتنی طاقت تھی کہ وہ گھوڑے تو گھوڑے اونٹ کو بھی چھلانگ لگانے کی ہدایت دے سکیں۔ ہم نے ان سے اسی لئے دوستی کرلی۔ ابوالفصاحت کو یوں بھی سر اٹھا کر چلنے کی کبھی عادت نہیں ہوئی۔ انھوں نے شاید ہی کبھی اپنے سر کو اوپر اٹھایا ہو۔ کبھی کبھی چاند کو دیکھ لیا تو دیکھ لیا۔ چاند دیکھنا بھی انہوں نے ترک ہی کر دیا تھا کیونکہ ایک مرتبہ اپنی حویلی کی چھت پر وہ سب کے ساتھ رمضان کا چاند دیکھنے گئے تو چاند انھیں نظر آگیا تھا اور جب انھوں نے یہ کہا کہ چاند انھوں نے دیکھ لیا ہے تو ان کی دلہن نے انھیں منع کردیا، یہ کہہ کر کہ جب تک ہم چاند نہ دیکھ لیں تم نہیں دیکھ سکتے اور تھوڑی دیر بعد سبھی لوگ چھت سے اتر آئے اور اعلان کردیا کہ چاند نہیں ہوا ہے۔ جب رات میں ریڈیو پر چاند کے ہوجانے کی خبر نشر ہوئی تو دلہن نے ابوالفصاحت سے جواب طلب کیا کہ تم نے تو انھیں فون نہیں کیا تھا۔ فون پر ان کی انگلیوں کے نشانات بھی ڈھونڈے گئے۔
ہم نے ابوالفصاحت سے کبھی ہمدردی نہیں کی۔ ہمدردی اس شخص سے کی جاتی ہے جسے کوئی دکھ ہو، غم ہو، وہ کسی بات پر رنجیدہ ہو، افسردہ ہو، ابوالفصاحت میں ہم نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں دیکھی۔ ان تک تو صرف دلہن کی رسائی تھی، کوئی اور احساس ان کے نزدیک پھٹک بھی نہیں سکتا تھا۔ احساس سے عاری ہونا بھی ایک نعمت ہے۔ ابوالفصاحت کی دلہن یعنی ایک لحاظ سے ہمار ی بھابی کی انتظامی صلاحیتوں کے بارے میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں۔ بھابی تو ہم نے آپ کے سامنے کہہ دیا ورنہ انھیں بھابی ہم نے کبھی کہا نہیں، ہمیشہ دلہن پاشا ہی کہا وہ بھی بڑے ادب سے۔ ابوالفصاحت بھی انہیں دلہن پاشا ہی کہتے ہیں لیکن کہنے میں ذرا ادب زیادہ ہوتا ہے۔ دلہن البتہ انھیں اے جی کہتی ہیں اور لہجہ تو ہم نے پہلے ہی آپ کو بتادیا کہ سخت ہوتا ہے کیونکہ وہ ہے ہی سخت۔
کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ابوالفصاحت گھنٹوں ہمارے ساتھ تنہا رہے ہوں لیکن کبھی انھوں نے ہم سے اپنا درد دل بیان نہیں کیا۔ اب تو یہ بھی بھول گئے ہیں کہ وہ کہاں کے رہنے والے ہیں، ان کی دلہن نے انہیں کہیں کا رکھاہی نہیں۔ ہاں دلہن نے ان کی زراعت اور کرایے کی کوٹھیوں کا انتظام اپنے ہاتھ میں نہ لے لیاہوتا اور اتنی جلدی سے اس کی دیکھ بھال نہ کی ہوتی تو ابوالفصاحت اب تک کوڑیوں کے مول بک چکے ہوتے۔ دلہن ان سے بھی خاصے گھر کے کام کروا لیتی ہیں۔ دھوبی کے کپڑے لکھنا انہیں کے ذمے ہے۔ سرکاری بل میونسپلٹی کے بل، ریڈیو کا لائسنس ان سب کی ادائیگی بھی انہیں کے سپرد ہے کیونکہ ان میں کوئی خرد برد نہیں ہوسکتی۔ البتہ شاپنگ پوری کی پوری وہ خود کرتی ہیں۔ ان سے آج تک انھوں نے کوئی دو روپے کی چیز تک نہیں منگوائی۔ ابوالفصاحت کو نقد جیب خرچ بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ کہتی ہیں جو چیز بھی چاہو منگوا دوںگی اور جب بھی یہ کسی چیز کی فرمائش کرتے ہیں، ان کے نقصاندہ ہونے کا ذکر چھڑجاتا ہے۔ سگریٹ یہ پی نہیں سکتے، اس سے کینسر ہوجاتا ہے۔ پان نہیں کھا سکتے، اس سے دانت خراب ہوجاتے ہیں، لیکن صرف مردوں کے، خود وہ دن بھر پان کھاتی رہتی ہیں۔ سینما وہ جاسکتے ہیں، لیکن صرف دلہن کے ساتھ یا زیادہ سے زیادہ کسی ایک برادر نسبتی کے ساتھ اور وہ بھی صرف وہ پکچر دیکھ سکتے ہیں جو ان کے برادر نسبتی دیکھنا چاہیں اور وہ بھی اس دن جب ان کے برادر نسبتی جانا چاہیں۔ ابوالفصاحت لہو ولعب کے آدمی بھی نہیں۔ کرکٹ کی کمنٹری سبھی سنتے ہیں لیکن انھیں وہ سننا بھی پسند نہیں۔ کہتے ہیں یہ کرکٹ میدان میں گلی کہاں سے آگئی۔ یہ بھی کوئی کھیل ہوا۔
ایسا سعادت مند شوہر جو اپنی بیوی کے سامنے کرسی پر بیٹھتا تک نہ ہو ہماری نظر سے نہ گزرا۔ اس میں شک نہیں ہم نے بھی اپنے گھر میں کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم بھی شیر ہیں۔ کئی سال پہلے ایک مرتبہ کہا تھا تو اس کا نتیجہ کچھ اچھا نہیں نکلا تھا۔ تاہم ابوالفصاحت عالم قدر کی حد تک خدا کسی کو نہ پہنچائے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دلہن نے انھیں ہرضرورت سے بے نیاز کردیا ہے اور اب وہ ضرورت کو جاتے بھی ہیں تو دلہن سے پوچھ کر ہی جاتے ہیں۔٭٭