طنز و مزاحمضامین

ہم کچھ کہیں؟

نصرت فاطمہ

کہا جاتا ہے کہ خاموش رہنا بہترین عادت ہے۔ خاموش رہنے سے ہم کتنی ہی مصیبتوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ داناکہتے ہیں کہ انسان پر زیادہ تر مصیبتیں اس کی زبان کی وجہ سے آتی ہیں۔ تو بے زبانوں پر ان کی بے زبانی کی وجہ سے۔ لیکن کبھی کبھی (اپنی ہی بے وقوفی کی وجہ سے) دل کرتا ہے کہ کاش ہم بے زبان ہی ہوتے!! ایک جناب کے ساتھ یہی واقعہ ہوا۔ کہتے ہیں کہ ایک چینی میرا دوست ہے جس کا نام” وانگ ” ہے۔ وانگ نے ایک بار مجھے اپنے گھر پر کھانے کے لیے بلایا۔اس کے گھر پہنچ کر میرے دل میں کئی دنوں سے جوایک سوال آتا تھا، وہ میں نے جھجھکتے ہوئے پوچھ ہی لیا:”مسٹر وانگ!! چین میں آپ لوگ ایک دوسرے کی ملتی جلتی شکلوں سے پریشان نہیں ہوتے؟”
اس نے ایسا جواب دیا کہ ہمیشہ کے لیے میری بولتی بندہو گئی:
"وہ دکان سے کچھ چیزیں خریدنے کے لیے گیا ہے۔ میں وانگ کی بیوی ہوں۔”
اسی طرح ایک بیچارے "مظلوم” شوہر نے بیگم کے آگے زبان کھولی۔
شوہر:آج اتوار ہے۔ کپڑے دھودو
بیوی: کیا کہا؟؟؟؟؟
شوہر:میں نے کہا آج اتوار ہے کپڑے دھو دوں؟
تو دیکھیے نون غنہ بھی بڑی ہی اہمیت کا حامل ہے۔بس بروقت استعمال کرنا آنا چاہیے۔ ایسے ہی کچھ ”دانشور“ہوتے ہیں جوخواہ مخواہ ہی زیر زبر کے چکر میں پڑ کر خاموش نہیں رہ سکتے۔
ایک صاحب پوچھ رہے تھے، صحیح لفظ جہنَم ہے یا جہنُم؟
ہم نے کہہ دیا آپ کو جانے سے مطلب ہے یا زبر، پیش سے۔ تب سے ناراض ہیں!!!
الفاظ خاموش کر بھی دیتے ہیں اور کچھ الفاظ خاموش رہ کر بھی سارا مطلب بیان کر دیتے ہیں۔
جس طرح انگریزی زبان میں کچھ حروف (سائلنٹ)یعنی خاموش ہوتے ہیں اسی طرح اردو میں بھی کچھ الفاظ خاموش ہیں. ملاحظہ فرمائیں کہ
جب دوکاندار کہتا ہے: ”آپ کو زیادہ نہیں لگائیں گے۔“……اس میں ”چونا“ خاموش ہے۔
رخصتی کے وقت جب دولہا سے کہا جاتا ہے: ”خیال رکھنا“……اس میں ”اپنا“ خاموش ہے۔
جب یہ کہا جاتا ہے: ”ہماری لڑکی تو اللہ میاں کی گائے ہے“
اس میں ”سینگوں والی“ خاموش ہے۔
جب کوئی نیم حکیم آپ سے کہے کہ اس دوا کے استعمال سے چند روز میں ”جڑ“ سے ختم ہو جائے گا۔ تو آپ کے لیے خاموش یا پوشیدہ پیغام ہے کہ وہ یا تو مرض کی بات کر رہے ہیں یا مریض کی!!
ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرنا اور چپ رہنا بھی ظلم کرنے کے برابر ہے۔ یہ ہمیں ہمارا مذہب بھی سکھاتا ہے اور حالات بھی۔ چاہے آپ کو اس کے لیے لڑنا پڑے اور چاہے انصاف کرنے والے ہی ناانصافیوں پر اتر آئیں …… تب بھی…
ایک طوطا اور مینا ایک سنسان علاقے سے گزرے۔ وہ ایک درخت کی ڈالی پر بیٹھے آپس میں باتیں کرنے لگے۔ طوطے نے کہا:
”لگتا ہے یہاں سے کسی الّو کا گزر ہوا ہے تبھی یہ بستی ویران ہوگئی ہے“
مینا نے سر ہلا کر طوطے کی بات کی تائید کی۔ ایک الّو کسی دوسری ٹہنی پر بیٹھا یہ باتیں سن رہا تھا، وہ اڑ کر ان کے پاس آیا حال پوچھا اور کہا:” آپ میرے علاقے میں آئے ہیں، میری خواہش ہے کہ آپ کھانا میرے ساتھ کھائیں۔“
طوطا مینا نے اس کی دعوت قبول کرلی۔ کھانے کے بعد جب وہ جوڑا رخصت ہونے لگا تو الّو نے مینا کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا:
”تم کہاں جا رہی ہو؟“
مینا حیرت سے اس کا منہ تکنے لگی، بولی:
”یہ کوئی پوچھنے کی بات ہے، میں اپنے شوہر کے ساتھ واپس جا رہی ہوں“
الّو یہ سن کر ہنسا اور بولا:
”یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ تم میری بیوی ہو“
اس پر تکرار ہونے لگی۔ الّو بولا:
”ہمارے اس طرح جھگڑنے سے کچھ نہ ہوگا، بہتر یہی ہوگا کہ ہم عدالت جائیں“
عدالت میں جج نے فیصلہ دیا کہ مینا الّو کی بیوی ہے۔
یہ سن کر طوطا روتا ہوا ایک طرف چل دیا۔ پیچھے سے الّو نے اسے آواز دی۔
”اکیلے کہاں جا رہے ہو، اپنی بیوی کو تو ساتھ لیتے جاؤ“
طوطے نے آنسو پوچھتے ہوئے کہا:
”اب میرے زخموں پر نمک نہ چھڑکو، عدالت کے فیصلے کے مطابق مینا میری نہیں تمھاری بیوی ہے۔“
یہ سن کر الّو نے آہستگی سے طوطے کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولا:
”نہیں دوست، مینا میری نہیں تمھاری بیوی ہے۔ میں تمھیں یہ بتانا چاہتا تھا کہ بستیاں الّو ویران نہیں کرتے، بلکہ بستیاں تب اجڑ جاتی ہیں جب بستیوں سے انصاف اٹھ جاتا ہے!“