مضامین

ہندوستان بمقابلہ چین: زیادہ آبادی ہونے والا ملک ہونا رحمت یا باعث زحمت؟

سوتک بسواس

ایک اندازے کے مطابق اگلے سال اپریل کے وسط میں ہندوستان کی آبادی چین سے بڑھ جائے گی اور یہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔ ایشیا کے دو بڑے ممالک چین اور ہندوستان کی موجودہ آبادی ایک ارب 40 کروڑ سے زائد ہے اور تقریباً 70 سال سے دنیا کی ایک تہائی آبادی ان دونوں ممالک میں مقیم ہے۔ یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ چین کی آبادی اگلے سال سے کم ہونا شروع ہو جائے گی۔ گزشتہ برس وہاں ایک کروڑ چھ لاکھ لوگ پیدا ہوئے تھے جو اس سال مرنے والوں کی تعداد سے کچھ زیادہ تعداد بنتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شرح پیدائش میں زبردست کمی تھی۔ حالیہ دہائیوں میں ہندوستان میں بھی شرح پیدائش میں نمایاں کمی آئی ہے۔ جب کہ 1950 میں ہندوستان میں شرح پیدائش 5.7 تھی، آج ہندوستان میں ایک عورت اوسطاً دو بچوں کو جنم دیتی ہے۔ لیکن شرح پیدائش میں کمی کی رفتار سست ہے۔
چین نے اپنی آبادی ہندوستان سے زیادہ تیزی سے کم کی ہے۔ سنہ 1973 میں چین کی آبادی میں اضافے کی شرح تقریباً دو فیصد تھی۔ سنہ 1983 تک چین نے اسے کم کر کے 1.1 فیصد کر دیا تھا۔ آبادی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین نے یہ سب حاصل کرنے کے لیے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ ان کے مطابق اس مقصد کے لیے چین نے دو طرح کی مہمات چلائی ہیں۔ پہلے اس نے صرف ایک بچے کی پالیسی اپنائی پھر بعد میں بڑی عمر میں شادی کرنے اور بچوں کے درمیان فاصلہ رکھنے کی پالیسی لاگو کی۔ چین نے یہ سب کچھ اس وقت کیا جب وہاں کے زیادہ تر لوگ دیہی علاقوں میں رہتے تھے، زیادہ تر ان پڑھ اور غریب تھے۔ہندوستان میں آبادی میں اضافے کی شرح بہت زیادہ تھی۔ پچھلی صدی کے دوسرے نصف میں ہندوستان میں آبادی میں اضافے کی شرح تقریباً دو فیصد سالانہ تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں اموات کی شرح کم ہونے لگی، متوقع عمر (تخمینہ عمر) بڑھنے لگی اور لوگوں کی آمدنی بھی بڑھنے لگی۔ شہروں میں رہنے والے زیادہ تر لوگوں کو پینے کا صاف پانی ملنا شروع ہوگیا اور وہ جدید سیوریج سسٹم سے بھی فائدہ اٹھانے لگے۔
لندن اسکول آف اکنامکس کے ڈیموگرافر ٹم ڈائیسن کہتے ہیں کہ اس کے باوجود ہندوستان میں شرح پیدائش زیادہ تھی۔ ہندوستان نے سنہ 1952 میں خاندانی منصوبہ بندی کا پروگرام شروع کیا۔ لیکن ہندوستان نے پہلی بار سنہ 1976 میں قومی آبادی کی پالیسی نافذ کی۔ اس وقت چین اپنی شرح پیدائش کو کم کرنے میں مصروف تھا، لیکن سنہ 1975 میں ایمرجنسی کے دوران ہندوستان میں لاکھوں غریبوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کے نام پر زبردستی نس بندی کردی گئی۔ اس دوران عام شہری آزادیوں کو معطل کر دیا گیا۔ اس سے خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف لوگوں میں بغاوت پیدا ہوگئی۔ پروفیسر ٹم ڈائسن کہتے ہیں کہ ’ہندوستان میں شرح پیدائش زیادہ تیزی سے کم ہوتی اگر ایمرجنسی نافذ نہ کی جاتی اور سیاست دان منصوبہ بندی کے بارے میں زیادہ متحرک ہوتے۔‘ مشرقی ایشیائی ممالک جیسے کوریا، ملائیشیا، تائیوان اور تھائی لینڈ نے خاندانی منصوبہ بندی کی اسکیم ہندوستان سے بہت بعد میں شروع کی، لیکن وہ ہندوستان کے مقابلے میں شرح پیدائش کو کم کرنے، بچوں کی شرح اموات اور زچگی کی شرح اموات کو کم کرنے، لوگوں کی آمدنی میں اضافہ کرنے اور انسانی ترقی کے اشاریہ میں ان کی پوزیشن بھی کافی بہتر ہونے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ہندوستان کو سنہ 1947 میں آزادی ملی۔ تب سے ہندوستان کی آبادی میں ایک ارب سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان کی آبادی میں اگلے 40 سال تک اضافے کا رجحان رہے گا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہندوستان کی آبادی میں اضافے کی شرح کئی دہائیوں سے کم ہورہی ہے اور ہندوستان نے ‘ڈیموگرافک ڈیزاسٹر’ کی تمام پیش گوئیوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ اسی لیے آبادی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس بنیاد پر دیکھا جائے تو پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں اگر ہندوستان کی آبادی چین سے زیادہ ہے۔ بڑھتی ہوئی آمدنی اور صحت اور تعلیم تک بہتر رسائی کی وجہ سے ہندوستانی خواتین اب پہلے کی نسبت کم بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔ ہندوستان کی 17 ریاستوں میں شرح پیدائش کم ہوگئی ہے۔ ہندوستان کی جنوبی ریاستوں میں شرح پیدائش میں کمی شمالی ہند کے مقابلے زیادہ تیزی سے دیکھی گئی ہے۔ پروفیسر ٹم ڈائسن کہتے ہیں: ’یہ افسوس کی بات ہے کہ ہندوستان کا زیادہ تر حصہ جنوبی ہند جیسا نہیں ہے۔ باقی تمام چیزیں برابر ہونے کی وجہ سے شمالی ہند کے کئی حصوں میں آبادی میں تیزی سے اضافہ نے لوگوں کے معیار زندگی کو متاثر کیا ہے۔چین سے زیادہ آبادی والا ملک ہونا بھی اہم ہو سکتا ہے‘ ہندوستان کی آبادی چین سے زیادہ ہونے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کے ہندوستان کے دعوے کو تقویت مل سکتی ہے۔ ہندوستان اقوام متحدہ کا بانی رکن ہے اور نیو دہلی کا ہمیشہ سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ اسے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت دی جائے کیوں کہ یہ اس کا ایک جائز مطالبہ ہے۔اقوام متحدہ کے شعبہ اقتصادیات اور سماجی امور میں آبادی کے ڈیویژن کے ڈائریکٹر جان ولموتھ کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہونا آپ کو کچھ داؤ پر لگاتا ہے۔‘
ممبئی میں قائم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز کے ’کے ایس جیمز‘ کے مطابق جس طرح سے ہندوستان کی ڈیموگرافی تبدیل ہو رہی ہے یہ پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے۔کے ایس جیمز کے مطابق کچھ خامیوں کے باوجود ہندوستان کو اس معاملے میں سراہا جانا چاہیے کہ اس نے آبادیاتی تبدیلی کو بہت صحت مند طریقے سے سنبھالا ہے کیوں کہ ہندوستان نے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کو ایسے جمہوری نظام کا حصہ بنایا جو زیادہ تر غریب اور ناخواندہ لوگوں پر مشتمل تھی۔ کے ایس جیمز کہتے ہیں کہ ’زیادہ تر ممالک نے یہ کامیابی اس وقت حاصل کی جب انھوں نے اعلیٰ خواندگی اور معیار زندگی کے اہداف حاصل کیے۔ ہندوستان کے لیے ایک اور خوشخبری ہے۔ دنیا میں 25 سال سے کم عمر کے ہر پانچ میں سے ایک ہندوستان سے ہے اور 47 فیصد ہندوستان کی آبادی 25 سال سے کم عمر کے افراد پر مشتمل ہے۔موجودہ ہندوستان کی آبادی کا دو تہائی حصہ 90 کی دہائی کے بعد پیدا ہوا جب ہندوستان نے معاشی اصلاحات شروع کیں۔ ماہر اقتصادیات شروتی راجگوپالن کے مطابق ہندوستان کے ان نوجوانوں میں کچھ خاص خصوصیات ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’نوجوان انڈیا کی یہ نسل علم اور نیٹ ورک اکانومی کا سب سے بڑا صارف اور محنت کش طبقے کا ذریعہ ہوگی۔ ہندوستان کے پاس عالمی ٹیلنٹ کا سب سے بڑا حصہ دستیاب ہو گا۔‘ سنہ 1947 میں انڈیا کی اوسط عمر 21 سال تھی۔ اس وقت آبادی کا صرف پانچ فیصد ساٹھ سال سے زائد عمر والوں کا تھا۔ آج انڈیا کی اوسط عمر 28 برس ہے۔ دس فیصد سے زیادہ آبادی کی عمر 60 سال سے زیادہ ہے۔ رکمنی ایس، جو کتاب ’ہول نمبرز اینڈ ہاف ٹروتھس: واٹ ڈیٹا کین اینڈ کانٹ ٹیل اس اباؤٹ ماڈرن انڈیا‘ کی مصنفہ کہتی ہیں کہ ’جیسے جیسے کام کرنے والوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی، حکومت پر بوڑھے لوگوں کی مدد کا بوجھ بڑھتا جائے گا۔‘

a3w
a3w