طنز و مزاحمضامین

ہڈ حرام جن!

عطاءالحق قاسمی

ایک دفعہ اخباروں میں ایک خبر شائع ہوئی تھی جس میں بتایا گیا کہ ایک موضع میں کسان جب صبح کے وقت اپنے کھیتوں میں فصل کی کٹائی کے لیے پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ جنوں نے ان کی فصلیں پہلے ہی کاٹ کر رکھی ہوئی تھیں اور بڑی نفاست سے ان کے ڈھیر لگائے ہوئے تھے، یہ جن اس کام کے اتنے ماہر تھے کہ انہوں نے فصلوں کی کٹائی فصلیں پکنے ہی پر کی تھی نیز ان کی علیحدہ علیحدہ ڈھیریاں پوری مہارت سے بنا کر رکھی تھیں۔
مجھے یہ خبر پڑھ کر کوئی حیرت نہ ہوئی کیونکہ جنوں پر ہمارا ایمان پختہ ہے۔البتہ حیرانی اس بات پر ہوئی کہ جنوں نے اب انسانوں کے کام بھی آنا شروع کر دیا ہے ورنہ ہم نے جنوں کے بارے میں جتنی حکایتیں سنی ہیں، ان کے مطابق تو یہ جن بہت عجیب وغریب قسم کی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ مثلاً کبھی کسی لڑکی پر عاشق ہو جاتے ہیں اور اس میںحلول کر جاتے ہیں جس پر عامل کو بلایا جاتا ہے جو مار مار کر اس لڑکی کا بھرکس نکال دیتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ ”پھینٹی“ دراصل جن کو لگائی جا رہی ہے، اسی طرح کبھی کسی مکان پر پتھروں کی بارش شروع ہو جاتی ہے اور کبھی یہ سننے میں آتا ہے کہ بیٹھے بٹھائے گھر کے برتن ہوا میں اچھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔یہ جن کبھی کسی اہلخانہ کی چارپائیاں اٹھانا شروع کر دیتے ہیں اور کبھی جنگل میں انسانوں کا روپ دھار کر کسی راہگیر کے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کا قد بڑھتے بڑھتے آسمان سے جا لگتا ہے جس پر بیچارے راہگیر کو مجبوراً بیہوش ہونا پڑتا ہے۔چنانچہ اگر دیکھا جائے تو جنوں کی کثیر تعداد ہڈحرام قسم کی ہے ،یہ کام وام کچھ نہیں کرتے بس شعبدہ بازیاں دکھا دکھا کر عوام کو مرعوب کرتے رہتے ہیں۔
جنوں کی ایک قسم تو ایسی بھی ہے جو اپنے تمام جاہ جلال اور سب کچھ کر گزرنے کا اختیاررکھنے کے باوجود خود کو بالکل بے بس کر دیتی ہے۔یہ وہ جن ہیں جو اگر انسان ہوتے تو اپنی اس خصوصیت کی بنا پر اقتدار میں ہوتے ،سیاست دان ہوتے، بیوروکریٹ ہوتے مگر شومی قسمت سے یہ جن رہ گئے، ترقی کی منزلیں طے نہ کر سکے۔ دریا میں نہاتے ہوئے ایک شخص کے ہاتھ میں ایک تربوز آیا اس نے یہ تربوز پکڑا اور باہر کنارے پر آگیا جونہی اس نے تربوز کھولا تو اس میں سے ایک لحیم وشحیم جن قہقہے لگاتا ہوا برآمد ہوا اور سینے پر ہاتھ رکھ کر کہا ”کیا حکم ہے میرے آقا “اس شخص نے کہا ”برادر !بات یہ ہے کہ میں غریب آدمی ہوں کرائے کے مکان میں رہتا ہوں، تم اگر میرے لیے کچھ کرنا چاہتے ہو تو مجھے کوئی پلاٹ دلوا دو یہ سن کر جن نے قہقہہ لگایا اور کہا تم اپنے اس مطالبے سے مجھے خاصے بیوقوف آدمی لگتے ہو ،میں اگر تمہیں پلاٹ دلوا سکتا تو کیا میں خود تربوز میں رہتا “اب دیکھا جائے تو یہ جن وہ ہیں جو جنوں کے نام پر بدنما داغ ہیں۔ یا تو یہ خود کو جن نہ کہلائیں یا یہ دعوے نہ کریں کہ وہ صاحب اختیار ہیں اور اگر وہ سیاہ و سفید کے مالک ہیں تو پھر بے گھر لوگوں کوگھر دیں، بھوکے کو روٹی دیں اور حاجت مندوں کی ضروریات پوری کریں۔بصورت دیگر یا تو انہیں نااہل سمجھا جائے گا، انہیں ہڈ حرام کہا جائے گا اور یا پھر یہ سمجھا جائے گا کہ یہ بدمست ہیں، انہیں دوسروں کی فاقہ مستی سے کوئی غرض نہیں۔
بہت عرصہ ہوا میں نے منور ظریف کی ایک فلم دیکھی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ الہٰ دین کا چراغ اس کے ہاتھ لگ جاتا ہے وہ چراغ کو رگڑتا ہے تو دھوئیں میں سے ایک جن قہقہے لگاتا ہوا برآمد ہوتا ہے، منور ظریف اسے کہتا ہے میں بہت اداس ہوں، خود کو تنہا محسوس کر رہا ہوں، میرے لیے کسی خوبصورت لڑکی کا بندوبست کرو۔ یہ سن کر جن ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے ”میرے آقا میں جن ہوں دلال نہیں ہوں“ اور جنوں کی یہ قسم وہ ہے جنہیں غیور جن کہا جاسکتا ہے لیکن اب ایسے جن خال خال ہی پائے جاتے ہیں ورنہ ہم نے تو چند ایک صحافیوں میں اور دانشوروں میں ایسے ایسے ”جن“ہی دیکھے ہیں جن کی ساری عمر ”جن“ کی بوتل پر سفارتخانوں کی سیر میں گزر جاتی ہے ،یہ جن قیمتی لباسوں میں پورے کروفر کے ساتھ ہمارے اور آپ کے درمیان رہتے ہیں اور ان کا شمار بہت معزز جنوں میں ہوتا ہے حالانکہ انہیں مونچھیں بڑھا کر کاندھوں پر رومال رکھ کر اور مٹھی میں سگریٹ دبا کر لاہور ہوٹل کے باہر کھڑا ہونا چاہیے۔
آخر میں اسد اعوان کی ایک غزل :
سبھی کی آنکھ محفل میں کسی پر ہے کہیں پر ہے
مگر میری توجہ دشمنِ ایمان و دیں پر ہے
زمانہ ڈھونڈنے نکلا ہوا ہے میرے قاتل کو
مگر میرے لہو کا رنگ تیری آستیں پر ہے
ضرورت کے لئے ملنا بھی پڑتا ہے حریفوں سے
یقیں ہم کو ابھی تک دوستی میں بے یقیں پر ہے
اسد بیداد سے بھی داد کی خواہش تو ہے لیکن
مجھے شکوہ سخن گوئی میں اپنے نکتہ چیں پر ہے
٭٭٭