محمد انیس الدین (سابق بینکر و این آرائی )
امت مسلمہ پون صدی سے صیہونی اور طاغوتی خفیہ اور ظاہری کارستانیوں کا شکار رہے اور مسلمان مسلسل ان کے جال میں آتے گئے جس کی وجہ سے ارض مقدس اور اس کے شعائر اسلامی سے بھی بتدریج دور ہوتے گئے۔ اسی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمنان اسلام ان کی آستین کا سانپ بن گئے اور مسلسل امت کو ڈستے رہے۔ ان ہی طاقتوں نے اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے1948ء میں ایک زہریلے ناگ کو ارض مقدس پر چھوڑ دیا اور اس کو دودھ پلا کر مسلسل پرورش کرتے رہے۔ یہی ناگ سارے ارض مقدس پر پھیل کر امت کیلئے عذاب جان بن گیا۔ اب زرا غور کیجئے کہ کی آپ اس زہریلے سانپ کے ساتھ رہنا پسند کریں گے یا اس سے نجات حاصل کریں گے۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ سانپ کی فطرت غاصبانہ ہوتی ہے اور اس کا اپنا ذاتی مقام یا گھر نہیں ہوتا۔ یہ اپنی فطرت کے مطابق چیونٹیوں کے محنت و مشقت سے بنائے ہوئے گھر پر قبضہ کرتا ہے اور چیونٹیوں کو نقل مکانی کیلئے مجبور کردیتا ہے اور سانپ جبر سے اپنا قبضہ جاری رکھتا ہے۔ یہ اسرائیلی سانپ جب تک ارض مقدس پر رہے گا مسلم امت کو مسلسل ڈستا رہے گا۔ پون صدی سے یہ اپنی فطرت سے باز نہیں آرہا ہے۔
جیسے عالمی ادارے طاغوت کے آگے مجبور ہیں اس طرح مسلم تنظیمیں اور ادارے بھی لاچار ‘ مجبور اور بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر عالمی اور مسلم تنظمیں بروقت انسانی تاور حقوق انسانی کا خیال کرتے ہوئے قیام امن اور حق کا ساتھ دیتیں تو فلسطین کا نزاع اس قدر پیچیدگی کا شکار نہ ہوتا۔ مسلم حکمران اپنی انا‘ مفاد پرستی ‘ خود غرضی کا شکار ہیں اور عالمی تنظیمیں طاغوت کے ہاتھوں میں کھلونا بن چکی ہیں۔ ایسی صورتحال میں امن کیسے قائم ہوگا۔
عالمی اداروں اور مسلم تنظیموں اور حکمرانوں کی بے حسی اور لاپروائی کے نتیجہ میں عرب سرزمین پر حماس‘ حزب اللہ ‘ حوثی جیسی تنظیموں نے ان علاقوں میں اپنا اثر رسوخ بڑھالیا اور اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مشرق اور مغرب کی اعلیٰ طاقتیں اس خطہ میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جارہے ہیں۔ ادھر مغرب اپنے نئے ہتھیاروں کا تجربہ کررہا ہے ‘ ادھر مشرق اپنی اسلحہ کی بالادستی کی دوڑ میں جدید ہتھیار فراہم کررہاہے۔ مغرب کی منافقت اور دوغلا پن ‘ جانبدارانہ زہریلی پالیسی عالمی فساد اور تیسرے متوقع عالمی سانحہ کا بنیادی سبب ہوگی جس کا آغاز بحر احمد کی آبی گزرگاہ سے ہوچکا ہے۔
یمن جو فلسطینی مظلومین کی حمایت اور ارض مقدس فلسطین کو صیہونی شکنجہ سے آزاد کرانے ان کی16 سو کلو میٹر دوری سے ساتھ دے رہا ہے۔ جبکہ فلسطین سے متصل مسلم ممالک ایسا حرکیاتی کردار اداکرتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ مسلم حکمران ماضی میں بمشکل یکجا ہوتے تھے لیکن 2023ء کی اسرائیلی درندگی کے بعد ایک پلیٹ فارم پر جمع توہیں لیکن ملت کے مفاد میں اور مظلومین کی حمایت اور حصول ارض مقدس کیلئے کوئی اہم فیصلہ کرنے سے مجبور ہیں جس کی وجہ سے H3 گروپ حرکت میں آیا اور اس کا ایک ممبر جس کا نام حوثی ہے ‘ یمن سے بحر احمر سے گزرنے والی نہر سے سمندری جہازوں کو نشانہ بنارہا ہے جس سے کسی بھی قسم کا سامان اسرائیل کو یا اسرائیل سے کسی اور ملک کو منتقل ہورہا ہے۔ اس اقدام سے عالمی بحری تجارت بھی متاثر ہوگئی جس کے سبب آئیل ‘ اجناس ‘ و دیگر اشیاء کی تجارت متاثر ہوئی۔ اس حملہ میں اسرائیلی جہازوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن اس حملہ کی زد میں کنٹینر شپ‘ آئیل ٹینکرس جو دوسرے ممالک ناروے‘ لائبیریا کے تھے وہ بھی زد میںآگئے۔
آپ کی معلومات کیلئے 10فیصد عالمی تجارت بحر احمر کے راستے سے ہوتی ہے۔
فلسطینی تنازعہ کے وسعت اختیار کرنے کے بعد کارگو شپس کے قریب سے میزائلس کے گزرنے کے واقعات کا نوٹ لیتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی شپنگ کمپنی MAERSK نے جمعہ 15دسمبر سے اپنے تمام VESSELS کو اپنا سفر تا اطلاع ثانی بحر احمر میں روکنے کی ہدایات جاری کردیں۔ 15 دسمبر جمعہ کے دن ایک جرمن شپنگ کمپنی Hapag lloyd حملہ کی زد میں آگئی۔ اس کمپنی نے بھی اپنے Vessels کو رک جانے کی ہدایات دے دیں۔
بحراحمر میں حالیہ حملہ اور اس کے اثرات عالمی شپنگ پر اس تعلق سے ذیل میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
بحر احمر میں جہازوں پر حملہ کون کررہا ہے اور کیوں کررہا ہے؟ فلسطین اور غزہ کے عوام کی حمایت اور ان مظلوموں کا ساتھ دینے کیلئے یمن یہ حملہ کررہا ہے۔کیا بحر احمر اہمیت کا حامل ہے؟ بحر احمرکے شمالی حصہ میں نہر سوئز ہے اور جنوبی تنگ راہگزر میں ’’ باب المندب‘‘ ہے جو خلیج عدن کی جانب جاتی ہے۔ یہ ایک مصروف ترین آبی گزرگاہ ہے جس سے بے شمار بحری تجارتی جہاز نہر سوئز پار کرکے ایشیاء سے یورپ میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک بڑی مقدار میں توانائی کی سپلائی‘ آئیل ‘ ڈیزل ‘ فیول اس آبی گزرگاہ سے یورپ کو مہیا کی جاتی ہیں۔
یمن نے دھمکی دی ہے کہ وہ ہر اس Vessel پر حملہ کرے گا جو اسرائیل سے آرہا ہے یا اسرائیل جارہا ہے۔ یہ لوگ ریڈیو کے ذریعہ یہ پیام ہر Vessel پر پہنچارہے ہیں۔
اس ناگہانی خوف سے بچنے کیلئے اسرائیلی جہاز اپنا راستہ تبدیل کررہے ہیں۔ اس راستے کی تبدیلی سے 19 دن کا سفر31دن میں ہورہا ہے جس سے اخراجات میں اضافہ اور تاخیر بھی ہورہی ہے۔ حالیہ حملوں سے عالمی آئیل مارکٹ متاثر ہوکر قیمتوں میں گراوٹ آچکی ہے اور بڑی معیشتیں طلب میں کمی کی وجہ سے متفکر ہیں۔ بحر احمر میںVessels پر حملہ کی وجہ سے انشورنس کی قیمت میں اضافہ ہوگیا ہے۔ بعض انشورنس کمپنیاں انشورنس مہیا کرنے سے انکار کررہی ہیں اور بعض اسرائیلی جہاز کے مالکین 250فیصد تک اپنی اشیاء انشور کروارہی ہیں ۔ کئی جہازوں کا نقصان ہوچکا ہے۔ دنیا کی بڑی جہاز راں کمپنیوں نے نہ صرف اسرائیل سے معاملت معطل کردی بلکہ بحر احمر سے گزرنے سے بھی انکار کردیا جس کی وجہ سے عالمی ملاحی کی 70فیصد تجارت متاثر ہوچکی ہے۔ ہانگ کانگ بھی اسرائیل سے بحری تجارت منقطع کرچکا ہے۔
امریکہ اور مغربی ممالک کی ہٹ دھرمی اور جہالت یہ ممالک دنیا میں امن دیکھنا نہیں چاہتے۔ جس کی وجہ سے ایک صدی سے دنیا کا امن پسند طبقہ ان ممالک کی جہالت اور ظلم و شرانگیزی کا شکار ہے۔ سارے عالم کے مسلمان ان ممالک کی منافقی اور شرانگیزی کا شکارہیں۔
خالق کائنات نے مسلم ممالک کو دولت سے مالا مال کردیا لیکن اس مسلم حکمران اس دولت کا فائدہ اٹھا کر عروج امت کا کوئی کارنامہ نہیں کرسکے۔ ہر وقت اپنے مفادات کو امت کے مفادات پر ترجیح دی اور کبھی بھی امت کے اجتماعی مفاد میں اتحاد کاثبوت نہیں دیا۔ مسلمانوں نے 1948ء میں غلطی کرکے اپنی سرزمین پر ایک ناسورکو جگہ دی اوریہی ناسور ان کے گلے کی ہڈی بن گیا۔ 2023ء میں بعض اہل ایمان اس ہڈی کو نکالنے کیلئے اپنی اور اپنے خاندانوں کی جان کی بازی لگارہے ہیں۔ اگر اس موقع کو بھی غنیمت جان کر مسلم حکمران اگر کوئی صحیح فیصلہ نہیں کرتے تو امریکہ‘ مغربی ممالک اور اسرائیل کی غلامی سے آزاد نہیں ہوسکتے۔
امریکہ کی تاریخ ہے کہ وہ کبھی تنہا مقابلہ نہیں کرتا اور اپنی فضائی برتری پرنازکرتا ہے ۔جب زمین پر مقابلہ کیلئے للکارا جاتا ہے تو اپنے ساتھیوں کو مدد کیلئے ساتھ لاتا ہے ۔ حالیہ فلسطین کے حق اور باطل کے معرکہ میں دو ماہ سے اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد جب یمن سے بحر احمر کی آبی گزرگاہ کا استعمال کیا تو صیہونی طاغوت کے ہوش اڑگئے۔ اور یہ طاقتیں یمن کو اس آبی گزرگاہ سے بے دخل کرنے ایک غریب ملک پر اجتماعی حملہ کی تیاری کررہے ہیں اور مسلم ممالک کو بھی اس کارِ شر میں شرکت کیلئے مجبورکررہے ہیں۔ اگر سلم ممالک اور اس کے حکمرانوں کے دلوں میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہے تو وہ صیہونی طاغوت کا کسی بھی قیمت پر ساتھ نہیں دیں گے اور1948ء کی گھناؤنی غلطی کا اعادہ 2023ء میں نہیں کریں گے۔
اسرائیلی درندگی فلسطین اور غزہ پر جاری ہے ‘ فلسطینی قوم پون صدی سے خون میں غسل کررہی ہے۔ یہ جنگ نہیں نسل کشی ہے ۔ بیس ہزار سے زائد افراد بشمول بچے اور خواتین اسرائیلی درندگی کا شکار ہوگئے۔ مہذب اقوام کے سربراہ اس نسل کشی پر منافقانہ اور مکارانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ایک طرف جنگ بندی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف اسرائیلی دہشت گرد اور غاصب کو جدید اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔
بعض مسلم ممالک اپنی قوت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مظلوم بھائیوں کی مدد کیلئے1600 کلومیٹر کی دوری سے اپنا حق ادا کررہے ہیں۔ جس بات پر مسلم حکمران اتحاد سے گریز کررہے تھے۔ اس کو ان ایمان والوں نے آبنائے باب المندب جو بحر احمر میں یمن کے ساحل پر 32کلو میٹر چوڑی آبی گزرگاہ کو غزہ میں اسرائیلی درندگی کو رکوانے کیلئے استعمال کررہے ہیں اور اسرائیلی جہازوں کو راستہ بدلنے پر مجبور کردیا۔ اس صورتحال کی وجہ سے اسرائیلی اور اس کے حواریوں کی نیند حرام ہوگئی اور امریکہ نے ایک دس ملکی محاذ تیار کیا جو آبنائے باب المندب پر اسرائیلی اور دیگر جہازوں کی حفاظت کرے گا۔ اس دس ملکی محاذ میں ایک مسلم ملک بحرین بھی شامل ہے۔
آثار و قرائن اور سوشیل میڈیا کی خبروں سے اس بات کا اشارہ مل رہا ہے کہ فلسطین پر ظلم کرنے والے جابر‘ ظالم ‘ درندہ صفت اسرائیلی حکمران کی زمینی جنگ میں حالت غیر ہوگئی۔ بے حساب جانی اور مالی نقصانات ہوئے ‘ اس کے ساتھ مجاہدین کو نقصانات ہوئے وہ اسرائیل اور مجاہدین کے دوبدو ٹکراؤ سے نہیں بلکہ بزدل صیہونی طاقتوں کے عوام‘ معصوم بچوں ‘ صحافیوں اور دواخانوں اور رہائشی عمارات پر ہوائی حملہ اورکیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے ہوئی۔ اسرائیلی درندوں نے فلسطینی عوام پر فاسفورس بموں کا استعمال کیا ‘ ڈاکٹرس اور صحافیوں کو بے دریغ قتل کیا گیا۔ بین الاقوامی جنگی قوانین اور اصولوں کی دھجیاں اڑانے والے اسرائیل سے یہ نام نہاد مہذب معاشرہ طرفدار کیسے ہوگیا جبکہ سارے عالم کے انسان اسرائیلی درندگی پر متحد ہیں اور آواز اٹھارہے ہیں۔
بحر احمر اسرائیل کیلئے بحرمقتل میں تبدیل ہونے والا ہے۔ اب تو ملائیشیاء ‘ ہانگ کانگ نے بھی اسرائیلی جہازوں کو اپنی بندرگاہوں پر آنے کی پابندی عائد کردی ہے۔ حقوق انسانی کا ڈھونگ رچانے والے اور مہذب دنیا کے علمبردار اسرائیل کی فلسطین پر درندگی پر اس کا ساتھ کیوں دے رہے ہیں۔ عالمی ادارے تماش بین اور عالمی طاقتیں ظالم کے طرفدار ہیں تو ایسی صورتحال میں مظلوم کیا کرے؟ جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو نظام قدرت حرکت میں آتا ہے اور ظالم صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔
سارے عالم کے یہودیوں میں یہ بات عام ہے کہ کبھی بھی دنیا میں یہودی ملک آٹھ دہوں سے زیادہ حکمرانی نہیں کرسکے کیوں کہ ان کے ساتھ آٹھ دہوں کی بدعا ہے ۔ اس بات کی تصدیق سبق اسرائیلی وزیراعظم یہود بارک اور حماس کے صدرنے کی جو اسرائیلی روزناموں میں شائع ہوئی۔ اب اسرائیل آٹھویں بددعا کے دہے میں داخل ہوچکا ہے اور اس کا زوال اور بربادی یقینی دکھائی دیتی ہے۔ اس وجہ سے بھی لاکھوں یہودی جن کو ارض فلسطین پر جبراً آباد کیا گیا تھا وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر یورپ کے آغوش میں پناہ لے رہے ہیں۔