مضامین

یوروپ کے ساحلوں پر کشتیاں کیوں ڈوبتی ہیں؟

منور مرزا

کچھ عرصے سے یوروپ کے ساحلوں پر ایسی کشتیاں تواتر سے ڈوب رہی ہیں، جن میں غیرقانونی تارکینِ وطن سوار ہوتے ہیں۔ اِس ضمن میں حال ہی میں یونان میں پیش آنے والے واقعے نے(جس میں اطلاعات کے مطابق 750 افراد ایک چھوٹی سی کشتی میں ٹھونسے گئے اوروہ یونان کے ساحل کے قریب سمندر میں غرق ہوگئی، جب کہ سانحے میں مرنے والوں کی زیادہ تعداد پاکستانیوں کی بتائی گئی، جو مختلف رپورٹس کے مطابق350 تک ہے، لیکن ابھی اس کی مستند ذرایع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔) سب کی توجّہ ایک بارپھراِن واقعات کی طرف مبذول کروادی۔
اِس سانحے کی ایک تکلیف دہ بات یہ بھی تھی کہ کشتی میں ایک سو کے قریب خواتین اوربچّے بھی موجودتھے، جنہیں نچلے حصے میں رکھا گیا تھا۔ ڈوبنے والوں کے خاندانوں کے ذریعے جو تفصیلات سامنے آئیں، اْن کے مطابق یہ سب انسانی اسمگلرز کی بے حسی و بے ضمیری کا نتیجہ ہے اوراِس طرح کے کئی نیٹ ورکس پورے ملک میں کام کررہے ہیں۔ یہ ایجینٹس بہت دھڑلّے سے یہ غیر قانونی کاروبار کررہے ہیں اور کوئی اِن کو پوچھنے والا نہیں یا پوچھنے والے بھی خود اِن ہی سے ملے ہوئے ہیں۔ اس سانحے سے متاثرہ لوگوں سے بھی فی بندہ30 سے 35 لاکھ روپے وصول کیے گئے، جو بیش تر لوگوں نے جائیدادیں بیچ کر ادا کیے یا پھر اِدھر اْدھر سے مانگ تانگ کر انتظام کیا گیا۔
ایسا نہیں کہ کشتیوں میں بیرونِ ملک جانے والوں کو خطرات کا علم نہیں تھا، بلکہ اْن کے سامنے اْن دوستوں اور عزیزوں کی مثالیں موجود تھیں، جو اِسی خوف ناک اور عبرت ناک طریقے سے یوروپ پہنچے تھے۔ مگر بہرحال، ایک خوش حال زندگی کا خواب یہاں کے نوجوانوں کو مجبور کردیتا ہے کہ وہ بھی سب کچھ جانتے ہوئے موت کا یہ سفر اختیار کریں۔ اِسے لالچ بھی کہہ سکتے ہیں اور بہتر زندگی کی جدوجہد بھی، لیکن یہ باتیں کسی بھی طرح ان کے اس غیر قانونی اقدام کا جواز نہیں بن سکتیں۔ اِس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان خراب ترین معاشی حالات سے گزر رہا ہے، مِڈل کلاس تک حواس باختہ ہو رہی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ حْکم ران، جو اب تک مْلک کے معاشی حالات مستحکم نہیں کر سکے، وہ بھی اِن واقعات کے مجرم ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ لالچ، دو نمبری سے آگے بڑھنے، حقیقت سے آنکھیں چْرانے، محنت سے کترانے اور راتوں رات امیر بننے کے خواب بھی ایسے واقعات کے اہم محرّکات ہیں۔ اگر جھوٹ، مکروفریب کسی معاشرے میں اِس طرح جڑ پکڑ لے، جیسے پاکستان میں ہے، تو پھر ایسے سانحات کا رْونما ہونا کوئی عجیب یا اَن ہونی بات نہیں۔ ہم اِنہی صفحات پر تقریباً دس برس سے مسلسل اِس طرح کی نقل مکانی سے وابستہ مسائل پرلکھ رہے ہیں (جو اصل میں شامی خانہ جنگی کا نتیجہ تھے، جہاں شہریوں کے لیے اپنے ہی حْکم رانوں اور اْن کے اتحادیوں نے وطن کی زمین تنگ کردی تھی) مگر ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو اِس طرح کی باتوں سے کوئی دل چسپی ہی نہیں اور وہ اِنھیں بے پَر کی نصیحتیں سمجھ کر توجّہ کے قابل ہی نہیں گردانتے۔
میڈیا، جس کی ذمّے داری ہے کہ وہ اِن معاملات پر مسلسل لوگوں کو آگاہی فراہم کرتا رہے، صرف سیاست میں اْلجھا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا صرف سانحات رْونما ہونے کے بعد ہی حرکت میں آتا ہے، جب کہ سوشل میڈیا کا بھی، جو اِس سلسلے میں سب سے موثر کردار ادا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے، اِدھر اْدھر کے معاملات پر زیادہ فوکس ہے۔ بین الاقوامی معاملات جیسے موضوعات کو، جن سے ہمارے ملک اور لوگوں کا براہِ راست تعلق ہے، بے کار اور خشک سمجھا جاتا ہے، یہاں تک کہ بہت سے تعلیم یافتہ افراد فخر سے کہتے ہیں کہ’’ہمیں اِس طرح کی تحریریں پڑھنے میں کوئی دل چسپی ہے اور نہ ہی ان کے لیے فرصت۔“ مین اسٹریم میڈیا پر کرنٹ افیئرز میں بین الاقوامی امور کی سرسری جگہ ہے۔
اینکرز اِسے قابلِ توجّہ ہی نہیں سمجھتے، کیوں کہ یہ کسی طرح کی پبلک ریلشننگ کا ذریعہ نہیں ہوتے، پھر یہ کہ ماضی میں کھوئے رہنا ہمارا کلچر بن چْکا ہے اور ہم اْسی پر گزارہ کرتے ہیں، کیوں کہ حال بہت تلخ ہے اور اِس سے نکلنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑے گی، جس کے لیے ہمارے پاس، خاص طور پرنوجوانوں کے پاس وقت ہی نہیں، وہ شارٹ کٹ کی تلاش میں ہیں۔ ہمارے یہاں عوامی سطح پر یہ جملہ عام ہے اور میڈیا کا پسندیدہ موضوع بھی کہ ”اگر سیاست دان اور تاجر اپنی بیرونِ مْلک پڑی دولت وطن لے آئیں، تو تمام مسائل حل ہوجائیں“،گویا اِس فرضی دولت کی آس اور تصوّراتی مجرموں کو کوسنا ہی ہماری زندگی کا مقصد بن کے رہ گیا ہے۔
ہم اْسی رہنما کے پیچھے چلتے ہیں، جو خوابوں میں جھوٹ اور فریب کے رنگ بَھر کے اْنھیں چٹ پٹا بنا دے۔ دْکھ کی بات تو یہ بھی ہے کہ پاکستانی تارکینِ وطن کی جو بڑی تعداد عرب ممالک، یوروپ یا برطانیہ وغیرہ پہنچنے کامعرکہ کسی طرح سَرکرچْکی ہے، وہ بھی اِسی طرح کی فضولیات میں اْلجھی ہوئی ہے۔ وہ لوگوں کو بتاتے پِھرتے ہیں کہ اْن کا وطن، جہاں وہ پلے بڑھے، قابلِ نفرت ہے، اِس کے سیاست دان، حْکم ران اور ادارے سب قابلِ ملامت ہیں۔ ایسے مایوس لوگوں کے ساتھ اب 9مئی کے بعد مْلک سے فرار ہونے والے خْود ساختہ دانش وَر بھی شامل ہوگئے ہیں، جنہوں نے اپنے نازک کندھوں پر قوم کی فلاح اور انسانی حقوق کے تحفّظ کا کوہِ گراں اْٹھا رکھا ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ جن ممالک میں وہ رہ رہے ہیں، جہاں پناہ گزین ہیں، وہاں کے اصل باشندے اْنہیں کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
یوروپ، امریکہ اورمغربی ممالک میں بڑھتی قوم پرستی کوئی مفروضہ نہیں اور نہ ہی کسی کو خوف زدہ کرنے کی کوئی سازشی تھیوری ہے۔ اْن ممالک میں گزشتہ انتخابات کے نتائج دیکھ لیں، تو اندازہ ہو جائے گا کہ وہاں کی سیاسی اور سماجی سوچ کس طرح تبدیل ہو رہی ہے اور اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتّب ہورہے ہیں۔ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ قوم پرستی کی اِسی لہر میں بہہ کر وائٹ ہاؤس پہنچے اور وہ آج بھی بہت مقبول ہیں۔ جاپان میں شنزوابے دوسری جنگِ عظیم کے بعد سب سے بڑے قوم پرست لیڈر تھے، اْنہوں نے چھ سال تک وزارتِ عظمیٰ کا عْہدہ سنبھالے رکھا، جو ایک ریکارڈ ہے۔
شنزوابے نے جاپان کے آئین میں ترمیم کر کے اس کا فوجی کردار بحال کیا۔ یوروپ میں اٹلی جیسے ملٹی کلچر ملک میں قوم پرست لیڈر اقتدار میں ہیں اور برطانیہ میں بریگزٹ ہوچکا ہے۔ جرمنی میں مرکل کو اِسی قوم پرستی، بالخصوص تارکینِ وطن کی حمایت کے سبب سیاست سے الگ ہونا پڑا۔ فرانس میں قوم پرست رہنما، لی پین صدارتی مقابلے کے حتمی راؤنڈ تک پہنچیں، یہ تو چند ممالک کی مثالیں ہیں، باقی یوروپی ممالک میں بھی قوم پرست نظریہ مضبوط ترہوتا جارہا ہے، جس کی بنیاد تارکینِ وطن کی مخالفت ہے۔ یوروپ کے اِن لوگوں کا خیال ہے کہ تارکینِ وطن اْن کے معاشرے کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر مسلم تارکینِ وطن تو اْن کے لیے ناقابلِ قبول ہیں۔
یوروپ میں کہا جارہا ہے کہ یوکرین کے پناہ گزین قابلِ قبول ہیں کہ وہ یوروپی نسل سے تعلق رکھنے کے ساتھ اْن کے ہم مذہب ہیں، جب کہ شامی اور دیگر مہاجرین غیر اور اْن کے معاشرے کے لیے اجنبی ہیں۔ پھر یہ کہ مسلم ممالک سے آنے والوں کے رویّوں اورحرکتوں کی وجہ سے بھی اْن کے لیے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ وہ نئے مْلک کی سیاست یا معاشرت میں کوئی اہم کرداراداکرنے کی بجائے اپنے آبائی ممالک ہی کی سیاست میں مصروف ہیں۔ پاکستانی تارکینِ وطن گزشتہ برسوں میں اِس حوالے سے غیرمعمولی طور پر فعال رہے۔ وہ اِس فعالیت کا نقصان سمجھ نہیں پا رہے، کیوں کہ اْن کے خیال میں یوروپ اور امریکہ میں آج بھی دوسری عالمی جنگ کے بعد جیسی اظہارِ رائے کی آزادی موجود ہے، حالاں کہ یہ پانچ نسل پہلے کی بات ہے۔
سوئیڈن کی مثال سامنے ہے، جہاں وہ پارٹی اقتدار میں ہے، جو تارکینِ وطن، خاص طور پر مسلمانوں کے سخت خلاف سمجھی جاتی ہے۔ حال ہی میں قرآنِ پاک کے نسخے کی بے حرمتی کا اَلم ناک واقعہ ہوا، جس پر دنیا بَھر کے مسلمانوں نے شدید ترین غم و غصّے کا اظہار کیا، جب کہ اسے غیرمْسلموں نے بھی ناقابلِ قبول جرم قراردیا۔ گرچہ سوئیڈن کی حکومت نے اِسے انفرادی فعل کہا اور یہ کہ اِسے کسی طور حکومت کی پالیسی سے نہیں جوڑا جاسکتا اور ممکن ہے کہ اْس کا یہ موقف درست بھی ہو، لیکن تارکینِ وطن کے خلاف وہاں جو لاوا پَک رہا ہے، اْس کا کیا کریں گے۔ سوئیڈن میں عوام کی اکثریت آج بھی اِس بات کی حامی ہے کہ اقلیتوں سے نفرت نہ کی جائے کہ وہ کم زور طبقہ ہے، لیکن پھر بھی تارکینِ وطن کے خلاف مختلف اندیشے دَبی زبان میں زیرِ بحث آتے رہتے ہیں۔
سویڈن ایک عرصے سے ناٹو کی رْکنیت کا خواہش مند ہے، جب کہ تْرکی اس کی مخالفت کرتا رہا ہے اور اِسی وجہ سے وہ ناٹو کا رکن نہ بن سکا، لیکن چند ہفتے قبل صدر اردغان نے سوئیڈن کی ناٹو میں شمولیت کی حمایت کی۔ تْرکی کی معاشی مجبوریاں سمجھی جاسکتی ہیں، لیکن اِس سے یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ جذبات خواہ کتنے ہی شدیدکیوں نہ ہوں، بین الاقوامی معاملات آگے بڑھانے کے لیے بہت سے سمجھوتے کرنے ہی پڑتے ہیں۔
یوروپ میں آبادی کی بڑی عمر کامسئلہ خاصا پیچیدہ ہوگیا ہے اوراْنہیں نوجوان کارکنان کی اشد ضرورت ہے، لیکن بدقسمتی سے ایسے افراد، جو کم ازکم گریجویٹ ہوں، آئی ٹی اور جدید ٹیکنالوجی سمجھ سکیں، مسلم ممالک اور پاکستان سے یوروپ جانے والے اِن شرائط پر کم ہی پورے اْترتے ہیں، زیادہ تر تارکینِ وطن نان اِسکلڈ لیبر کے زمرے میں آتے ہیں۔ جو کشتیاں ڈوب رہی ہیں، اْن میں سوارنوجوانوں کاتعلیمی ریکارڈ دیکھیں، تو یہی صْورت نظر آئے گی۔ لیکن اِس کے باوجود، پاکستان سمیت مختلف مسلم ممالک کے نوجوانوں کی قانونی اور غیرقانونی طریقوں سے یورپ جانے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔
ایک طرف بے حرمتی کے واقعات پرلاکھوں افراد کا احتجاج اور دوسری جانب، بہتر مستقبل کے لیے اْنہی ممالک میں جانے کے لیے سَر دھڑ کی بازی لگانا، بظاہر تو ایک متضاد رویّہ ہے، مگر اِس سے بہت سے سوالات بھی جنم لیتے ہیں۔ اِس موت کے سفر کے لیے وہ لاکھوں روپے انسانی اسمگلرز کو دیتے ہیں۔ انتہائی افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ اِن اسمگلرز کے اڈّے لیبیا اور افریقا کے ساحل پر موجود مسلم ممالک میں قائم ہیں۔ بی بی سی کی ایک تحقیق کے مطابق، اِس غیرقانونی کام کے لیے سوشل میڈیا کو بھرپور طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ یونان سانحے سے قبل1200ایسی سوشل میڈیا پوسٹس یوٹیوب، فیس بْک اور دوسرے پلیٹ فارمز پر موجود تھیں، جن میں پاکستانی نوجوانوں کویورپ میں سہانے مستقبل کے خواب دِکھائے گئے تھے۔
بہرکیف، سانحہ یونان ہماری آنکھیں کھول دینے لیے کافی ہے۔ مستقبل میں اِس طرح کے واقعات نہ ہوں،اِس کے لیے جہاں حکومتی، انتظامی سطح پر بھرپور اقدامات کی ضرورت ہے، وہیں نوجوانوں کو بیرونِ ممالک ملازمتوں کے ضمن میں درست معلومات کی فراہمی بھی ضروری ہے۔ علاوہ ازیں، بدلتے حالات کے تناظر میں اْنھیں اْن مہارتوں سے بھی آراستہ کیا جانا چاہیے، جن کی بدولت وہ قانونی طور پر بیرونِ ممالک جاکر باعزّت طریقے سے رہ سکیں۔
٭٭٭