مولانا سید احمد ومیض ندوی
۲۰۲۴ء کے عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے۔ ملک کی ساری سیاسی پارٹیاں اس کے لیے سرگرم ہوچکی ہیں۔ حکمراں جماعت کسی طرح آنے والے عام انتخابات میں بھی بازی مارنا چاہتی ہے لیکن اسے اس بات کا خوف کھائے جارہا ہے کہ وہ عوام کے سامنے کیا منہ لے کر جائے گی۔ گزشتہ نو سالوں میں سوائے دنگے فساد کے اس نے کچھ نہیں کیا۔ ہاں بی جے پی کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ملک گروی رکھنے کا کام انجام دیا۔ ایک ایک کرکے سارے اداروں کو فروخت کرڈالا۔ اب اسے یہ خوف ستارہا ہے کہ۲۰۲۴ء کے لیے وہ عوام کا سامنا کیسے کریں۔ چناں چہ اس نے طے کرلیا کہ اس بار بھی ہندو مسلم فرقہ واریت کا سہارا لیے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ ملک میں ایک بار پھر ہندو مسلم منافرت کو ہوا دینے کے لیے اسے یکساں سول کوڈ کا ایشو ہاتھ لگ گیاہے۔ چناں چہ اس نے فوراً لا کمیشن کو حکم نامہ جاری کردیا کہ وہ یکساں سول کوڈ کے تعلق سے لوگوں سے آراء طلب کرے۔ جوں ہی لاء کمیشن نے یکساں سول کوڈ کے تعلق سے آرا طلب کرلیا گودی میڈیا حرکت میں آگیا اور مسلم پرسنل لاء کو آڑے ہاتھوں لینے کے لیے اس کے زر خرید غلاموں نے کمر کس لی۔ سارے ملک میں یکساں سو ل کوڈ کے تعلق سے اس قدر ہنگامہ کھڑا کردیا گیا کہ گویا یکساں سول کوڈ ہندوستان کے تمام مسائل کا واحد حل ہے۔ اگر ملک میں یونیفارم سول کوڈ لاگو ہوگیا تو ملک کے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کو چند باتوں پر خصوصی توجہ مبذول کرنی ہوگی۔
۱۔ یہ سارا کھیل ہندو مسلم کرکے ماحول کو گرمانے کے لیے کھیلا جارہا ہے تا کہ ایک بار پھر ہندو ووٹوں کو بی جے پی کے حق میں متحد کیا جاسکے۔ اس لیے مسلم طبقہ کو چاہیے کہ قانونی دائرہ میں یکساں سول کوڈ کی ضرور مخالفت کریں لیکن احتجاج اور سڑکوں پر ہنگامہ ہر گزنہ کریں۔ اس سے صرف حکمراں جماعت کو فائدہ ہوگا۔ مقام شکر ہے کہ مسلمان اس مرتبہ سنجیدگی کا ثبوت دے رہے ہیں اور ہر قسم کے غیر دانشمندانہ اقدامات سے گریز کررہے ہیں۔
۲۔ معاملہ کو ہندو مسلم رنگ دینے سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان یو سی سی کے خلاف چلائی جانے والی مہم میں مختلف غیر مسلم مذہبی اکائیوں کو بھی ضرور شامل کریں اور ملک کے عام باشندوں کو یہ تأثر دینے کی کوشش کریں کہ یہ محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ملک کے تمام اہلِ مذاہب کا مسئلہ ہے۔ یو سی سی کے نفاذ کی صورت میں صرف مسلمان ہی متاثر نہیں ہوں گے بلکہ مسلمانوں سے زیادہ عام برادرانِ وطن متأثر ہوں گے۔ جن کے طور طریقوں میں بہت زیادہ تنوع اور اختلاف ہے۔ مسلمان اس پہلو پر جتنا زیادہ فوکس کریں گے انہیں اتنی کامیابی ملے گی۔ ورنہ عام تأثر یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کے صرف مسلمان مخالف ہیں اور غیر مسلموں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
مختلف ذرائع سے یہ اطلاع پہنچ رہی ہے کہ شریعت کی حفاظت کے نام پر سادہ لوح مسلمانوں کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بالخصوص حالیہ دنوں میں جب قبائلیوں اور عیسائیوں کو یو سی سی سے الگ رکھنے کے حکومتی عندیہ کا اظہار ہوا۔ مسلمانوں کو اکسانے کی در پردہ کوششیں شروع کی جارہی ہیں۔ ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطالق حکومت اور برسراقتدار جماعت کے علاوہ آر ایس ایس نے مسلمانوں کے درمیان بعض ایسے سماجی دھڑوں کی نشان دہی کی ہے جو کہ محاذی تنظیموں اور اداروں کے سربراہوں سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے اور انہیں یونیفارم سول کوڈ کے خلاف میدان میں اتارا جائے اور مسلمانوں کو سڑکوں پر اتارنے کے لیے ماحول تیار کیا جائے۔ روزنامہ سیاست 10؍جولائی 2023 کے مطابق ملک بھر کے مختلف شہروں میں ایسے افراد کی نشاندہی کی جاچکی ہے جو اپنے سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر شریعت کے تحفظ کی دہائی دیتے ہوئے سڑک پر نکلنے کے لیے آمادہ ہیں۔ یونیفارم سول کوڈ معاملہ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کے کردار کو مشتبہ بنانے اور اسے غیر کارکرد ادارے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اس بات کی تیاری کی جارہی ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں تحفظ شریعت کے نام پر مسلمانوں کو سڑکوں پر اتارا جائے تاکہ ان کے سڑکوں پر آنے کے نتیجہ میں اکثریتی طبقہ متحد ہوجائے۔ نام نہاد دانشور جو سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے من مانی اور من گھڑت تاریخ کے ساتھ قوانین پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ تعلیم یافتہ طبقہ کو اپنی باتوں میں الجھانے میں مصروف ہیں۔
۳۔ ملک میں مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے ان کا اتحاد نہایت اہمیت کا حامل ہے‘ ہمیں اپنے بیشتر مسائل میں ناکامی اپنے آپسی انتشار اور قیادت پر عدم اعتماد کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یکساں سول کوڈ کے خلاف مہم ملک کے عام مسلمانوں کی جانب سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ بہتر طریقہ پر چلارہا ہے مسلمان بورڈ پر بھر پور اعتماد کریں۔ بورڈ میں تمام مسالک کو نمائندگی دی گئی ہے۔ ہر مسلک کے مقتدر علماء شامل ہیں۔ ملت اسلامیہ کو چاہیے کہ یو سی سی کے معاملہ میں بھر پور اتحادکا مظاہرہ کریں۔ کچھ حلقوں کی جانب سے اس قسم کی صورتِ حال میں بورڈ کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس سے سوائے نقصان کے کچھ نہیں ہوگا۔
۴۔ گودی میڈیا کی جانب سے مسلم پرسنل لاء کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے باوجودیکہ بورڈ کی جانب سے گودی میڈیا پر ڈیبیٹ میں شرکت سے منع کیا جاتا ہے لیکن ذاتی مفادات کی خاطر بعض شخصیات شریک ہوکر جگ ہنسائی کا ذریعہ بنتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان مؤثر طریقہ سے گودی میڈیا کے پروپیگنڈا کا جواب دیں۔ اس کے لیے طلاق وراثت وصیت تعدد ازدواج جیسے موضوعات کی معقولیت کو دلائل سے واضح کریں اس کے لیے نوجوان علماء کی ایک ٹیم تیار کی جائے۔ مسلم وکلاء تک غلط فہمی کا شکار ہیں۔ ان کی تربیت کے لیے بورڈ کی جانب سے تربیتی نظام چلایا جائے۔
۵۔ مسلمان اس حقیقت کو خوب ذہن نشین کرلیں کہ شریعت کی حفاظت کا سب سے مؤثر طریقہ شریعت پر عمل آوری ہے۔ ملک میں جب جب مسلمان شریعت سے دور ہوتے گئے غیروں کو شریعت میں مداخلت کا موقع ملتا رہا۔ طلاق ثلاثہ اس کی واضح مثال ہے۔ اگر مسلمان طلاق کے شرعی طریقے کے پابند ہوتے تو مسلم خواتین سپریم کورٹ سے رجوع نہ ہوتی اور حکمراں طبقہ کو یا سپریم کورٹ کو طلاق ثلاثہ کے خلاف ایکشن لینے کی نوبت نہ آتی۔ عدالتوں سے رجوع ہونے کے بجائے مسلمان اپنے عائلی مسائل دار القضا سے اسلامی طریقہ سے حل کرلیتے تو دشمنوں کو موقع نہ ملتا۔ ہمارے ملک میں مسلمانوں میں ایک طبقہ لبرلز کا ہے جو خود کو دانشور کہتا ہے اس میں مرد بھی ہیں اور خواتین بھی۔ یہ طبقہ ہمیشہ مسلم پرسنل لاء پر انگشت نمائی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ حالیہ یو سی سی معاملہ میں بھی اس طبقہ سے تعلق رکھنے والی خواتین نے یکساں سول کوڈ کی تائید کااعلان کیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے لبرل مسلمانوں کی ذہن سازی کی جائے اور انہیں بتایا جائے کہ مسلم پرسنل لاء خدا کا بنایا ہوا قانون ہے اور اس کے خلاف بنایا جانے والا قانون انسانوں کا خود ساختہ قانون قرار پاتا ہے۔ جس طرح اللہ کی ذات ہر قسم کے نقص سے پاک ہے اسی طرح اس کا قانون بھی تمام نقائص سے پاک ہے۔
۶۔ مسلمانوں کو مسلم پرسنل لاء پر عمل کا پابند بنانے کے لیے اصلاحِ معاشرہ کی منظم مہم چلانے کی ضرورت ہے۔ اصلاحِ معاشرہ مہم بورڈ کا اہم حصہ ہے اور بورڈ نے اس سے قبل بھی ملک بھر میں اصلاحِ معاشرہ مہم چلائی ہے۔ یہ مہم سال کے بارہ ماہ بلا توقف جاری رہنی چاہیے۔ بورڈ کی جانب سے ساری ریاستوں میں اصلاحِ معاشرہ مہم کے کنوینر بھی مقرر ہیں۔ ضرورت ہے کہ انہیں فوری طور پر متحرک کیا جائے اور ریاست کے تمام مکاتب فکر کے علماء کو اس میں شامل کیا جائے۔
۷۔ شریعت پر عمل آوری اور بالخصوص عائلی مسائل کو شریعت کی روشنی میں حل کرنا تب ہی ممکن ہوگا جب عام مسلمانوں کو شریعت کے عائلی مسائل کا ضروری علم ہوگا۔ اس وقت امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ شریعت کے ضروری علم سے محروم ہے۔ نوجوان شادی کرتے ہیں لیکن انہیںطلاق، نکاح اور میاں بیوی کے حقوق کے تعلق سے قطعی علم نہیں ہوتا۔ ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو شرعی،عائلی مسائل سے واقف کرانے کے لیے ملکی سطح پر کوشش کا آغاز کیا جائے‘ نوجوان طبقہ کے لیے شادی کورس کے نام سے چالیس روزہ کورس چلایا جائے ا س کے بغیر نکاح کی اجازت نہ جائے۔ اسی طرح مسلمان نوجوانوں کے لیے اور مسلم لڑکیوں کے لیے دینی اسلامی کورس کو ملک بھر میں عام کیا جائے۔
۸۔ برادرانِ وطن میں ایک بڑا طبقہ ہے جو فرقہ وارانہ نفرت نہیں رکھتا۔ لیکن وہ گودی میڈیا کے مسلم مخالف پروپیگنڈہ سے متأثر ہورہا ہے۔ گودی میڈیا باقاعدہ مہم کے تحت مسلم پرسنل لاء کے تعلق سے لوگوں کا ذہن بگاڑ رہا ہے۔ اس کے لیے بورڈ کے تحت تفہیم شریعت برائے غیر مسلمین کا نظام بنائیں تو مفید رہے گا۔
۹۔ اس وقت یو سی سی سے متعلق رائے عامہ کو ہموار کرنے اور تعلیم یافتہ مسلم طبقہ کو اپنا ہمنوا پنانے کے لیے نام نہاد مسلم دانشوروں کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں یہ مسلم دانشور سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ باور کرانے کی کوششیں کررہے ہیں کہ مسلمان جن قوانین پر عمل کررہے ہیں وہ در اصل اسلامی یا شرعی قوانین نہیں ہیں بلکہ دورِ نبوت کے بعد تیار کیے گئے قوانین ہیں۔ اس قسم کی کوششیں انتہائی گمراہ کن ہیں اس کے لیے علماء کرام کو آگے آکر ان کا جواب دینا ضروری ہے۔ کیوں کہ جس انداز سے یہ کوششیں کی جارہی ہیں وہ دین سے دور طبقہ کے علاوہ ایسے نوجوانوں کو جو دینی معاملات میں گوگل ہی پر انحصار کرتے ہیں نہ صرف مخمصہ کا شکار کررہے ہیں بلکہ وہ نوجوان اپنی ادھوری معلومات کے سبب دوسرے مسلمانوں کو بھی یو سی سی کا حامی بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔
۱۰۔ مسلم پرسنل لاء میں مداخلت اور یکساں سود کوڈ کے نفاذ کا مطالبہ کوئی نیا نہیں ہے۔ روزِ اول سے کیا جاتا رہا ہے۔ دستور کے رہنمایانہ اصول کی دفعہ 44کو لیکر فرقہ پرست طاقتیں ہمیشہ یونیفارم سول کوڈ کے حق میں آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ 1963ء میں حکومت نے ایک کمیشن مقرر کرنے کا عندیہ دیا تھا جس کا مقصد مسلم پرسنل لاء میں تبدیلی تھا مگر مسلمانوں کی شدید مخالفت کے سبب کمیشن کی تقرری ملتوی کردی گئی اور اس وقت کے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں یہ کہہ کر بحث ختم کردی تھی کہ حکومت اس وقت مسلم پرسنل لاء میں ترمیم کرنا مناسب نہیں سمجھتیں۔ اسی طرح جب پارلیمنٹ میں لے پالک بل پاس کیا گیا جس کی رو سے منھ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی طرح تمام حقوق حاصل ہورہے تھے جب یہ بل منظور ہوا تو اس وقت کے وزیر قانون نے اس بل کو یکساں سول کوڈ کی جانب پہلا قدم قرار دیا تھا۔ چوں کہ ہندو اکثریت کو متحد کرنے اور 2024ء میں اقتدار برقرار رکھنے کے لیے اب حکمراں جماعت کے پاس کوئی ایشو نہیں ہے اس لیے بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس مرتبہ ہندو رائے دہندوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے یکساں سول کوڈ نافذ کرہی دے گی۔ ہزار بار خدا نہ کرے اگر ایسا ہوگیا تو مسلمانوں پر دین و شریعت کے حوالہ سے نازک ذمہ داری آئے گی اور انہیں مجموعی طور پر عائلی مسائل میں بالخصوص شریعت کا دامن اس قدر مضبوطی سے تھامے رہنا ہوگا کہ انہیں عدالتوں کے خلاف شرع معاملوں کو اپنانے کی نوبت ہی نہ آئے مثلاً صاحب اولاد افراد اپنی زندگی ہی میں شریعت کے مطابق وراثت تقسیم کرلیں۔ اسی طرح دیگر معاملات میںبھی مسلمان خود شریعت پر عمل کرلیں اور انہیں تبدیل شدہ مسلم پرسنل لاء کو اپنانے کی ضرورت نہ پڑے۔