مضامین

ہندوستان کی تحریک آزادی میں مسلم خواتین کا کردار

ڈاکٹر بی بی خاشعہ

تحریک ہندوستان ہو یا تعمیر ہندوستان کی جدوجہد سیاسی، سماجی حوالے سے خواتین کا کردار قابل رشک اور قابل تقلید رہا ہے، یوں تو اسلام نے 14 سوسال قبل عورت کے سماجی، دینی، سیاسی، عائلی کردار کا تعین کر دیا تھا اور بطور ماں، بہن، بیٹی، بیوی اس کے حقوق وفرائض کا تعین کر دیا اور اسے سوسائٹی کا ایک قابل قدر فرد قرار دیا اور خواتین سے متعلق زمانہ جاہلیت کی تمام روایات اور رسومات کو مسترد کردیا، یہ اسلام ہی کا اعزاز ہے کہ اس نے عورت کو زبانی، کلامی عزت نہیں دی بلکہ عملاً بھی اس کا معاشی تحفظ کیا اور خواتین کو وراثت میں حصہ دار ٹھہرایا۔ اسلام نے خواتین کو جو مقام ومرتبہ دیا آج بھی مغرب اس کے قریب بھی نہیں ہے۔ ملک کی تحریک ِ آزادی میں مسلمانوں کے تمام طبقات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔سب سے اہم کردار علمائے کرام کا رہا ہے کہ انہوں نے نہ صرف ایسے نازک دور میں مسلم امت کی رہ نمائی کی بلکہ میدان عمل میں بھی پیش پیش رہے اور اپنی جانوں کا قیمتی نذرانہ پیش کیا۔ انگریزوں نے ملک کے اقتدار پر قابض ہوتے ہی بہت بڑے پیمانے پر علماءکی گرفتاریاں کیں اور انہیں ہزاروں کی تعداد میں پھانسی کے پھندوں پر لٹکا دیا۔ مسلمان تاجروں اور اصحابِ ثروت نے اپنی تجوریوں کے دہانے کھول دیے اور مجاہدین آزادی کا بھرپور مالی تعاون کیا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمانوں نے اپنے دنیاوی جاہ و منصب کو تج کر جدوجہد آزادی میں اپنی خدمات پیش کیں۔ مسلم خواتین نے ایک طرف میدان میں اُتر کر معرکہ آرائی کی تو دوسری طرف اپنے شوہروں،بھائیوں اور بیٹوں کو اخلاقی اور معنوی تعاون فراہم کیا جس کی بنا پر وہ پوری یکسوئی سے جدوجہد کرسکے۔ ضرورت ہے کہ موجودہ صورت حال میں جب کہ مسلمانوں کے کردار اور خدمات کا انکار کیا جا رہا ہے اور انہیں حاشیہ پر کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، ان کی خدمات کا زیادہ سے زیادہ تذکرہ کیا جائے اور انہیں نمایاں کرکے پیش کرنے کی مختلف تدابیر اختیار کی جائیں۔
تحریک آزادی ہند میں مسلم خواتین کے کردار پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ مسلم مجاہدینِ آزادی کی خدمات پر جو کتابیں پائی جاتی ہیں ان میں عموماً مردوں کا تذکرہ ملتاہے۔ ضمناً کہیں کہیں بہت سرسری انداز میں کچھ مسلم خواتین کا بھی ذکر کر دیا گیا ہے، البتہ چند ایسے مضامین ضرور رسائل و مجلات کی زینت بنے ہیں جن میں مسلم خواتین کے کردار کو نمایاں کیا گیا ہے۔اس موقع پر خصوصیت سے ایک کتاب کا تذکرہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جس کا نام ہے’ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مسلم خواتین کا حصہ‘۔ اس کی مصنفہ ڈاکٹر عابدہ سمیع الدین، ریڈر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ہیں۔ اس کتاب میں ان سینتیس مسلم خواتین کا تذکرہ کیا گیا ہے جنہوں نے 1857ءکی جنگ، تحریکِ عدم تعاون، تحریکِ خلافت اور بعد کی قومی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ انتہائی مختصر تعداد ہے۔ ہزاروں مسلم خواتین ہیں جنہوں نے آزادی کی جدوجہد میں سرگرم حصہ لیا ہے اور ان کی قربانیوں کا آج ہم پھل کھا رہے ہیں۔ آئندہ سطور میں چند نمایاں ترین مسلم خواتین کا مختصر تذکرہ کیا جائے گا۔
ہندوستان کی تحریکِ آزادی کو زمانی اعتبار سے دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:ایک 1857ءاور اس کے بعد کا دور جب ملک میں جگہ جگہ بغاوت ہو رہی تھی اور انگریزوں سے مسلح مقابلہ آرائی کا سلسلہ جاری تھا۔ اور دوسرا وہ دور جب پورے ملک پر انگریزوں کی پکڑ مضبوط ہو گئی تھی۔ اس زمانے میں انگریزوں سے ملک کو نجات دلانے کے لیے مختلف تحریکیں سرگرم عمل تھیں۔ ان دونوں ادوار میں ہمیں مسلم خواتین دوسرے مجاہدین آزادی کے ساتھ جدوجہد کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
اسرار الحق مجاز نے ہندوستانی عورت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے، لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنالیتی تو اچھا تھا
مسلم خواتین نے وقتِ ضرورت آنچل کو پرچم ہی نہیں بنایا بلکہ انہوں نے بندوق اور تلوار اٹھائی، گھڑ سواری کی اور میدانِ کارزار میں دشمن سے دو بدو مقابلہ کرکے اپنی بے مثال شجاعت کے جوہر دکھائے۔1857ءو مابعد کے زمانے میں جب جا بجا انگریزوں سے مجاہدین آزادی کی مسلح کشمکش برپا تھی بہت سی مسلم خواتین کے نام ملتے ہیں جنہوں نے بہ نفس نفیس جنگ میں حصہ لیا۔ انہوں نے باقاعدہ مردانہ لباس پہن کر شمشیر زنی کی، بہت سے دشمنوں کو قتل کیا اور قتل ہوئیں، بہت سوں کو گرفتار کرلیا گیا اور پھانسی دے دی گئی یا زندہ جلا دی گئیں۔ بہت سے ایسے مواقع آئے جہاں خواتین نے مردوں سے بڑھ کر بہادری کا مظاہرہ کیا۔ کتنی ہی عورتیں ہیں جن کا سہاگ چھن گیا، گودیں سونی ہو گئیں، گھر جلا دیے گئے، ساز و سامان لوٹ لیے گئے لیکن انہوں نے ذرا بھی کمزوری نہیں دکھائی اور راہِ عزیمت پر گامزن رہیں۔ کرنل ہُڈسن نے ایک موقع پر کہا تھا:
”جس ملک کی عورتیں اتنی جاں باز اور وفادار ہوں وہاں انگریزوں کی حکومت محض چند دولت و جاگیر کے لالچی غداروں کی نمک حرامی پر ہی منحصر ہے“
دہلی میں جن دنوں بہت افراتفری تھی، وہاں کے ایک آسودہ حال گھرانے کی ایک خاتون، جس کا نام نازنین تھا مجاہدین کی فوج میں بھرتی ہو کر فصیل کے پہرے پر مقرر ہوئی۔ وہ بندوق کا نشانہ لگانے اور تلوار بازی میں ماہر تھی۔ فصیل کی حفاظت کرتے ہوئے گولی کا نشانہ بن کر شہید ہوئی۔
ایک نامعلوم خاتون کا تذکرہ ملتا ہے، جسے ’سبز پوش خاتون‘ کا نام دیا گیا ہے، اس لیے کہ وہ ایک سبز رنگ کے برقع میں ملبوس، گھوڑے پر سوار ہو کر لوگوں کو جہاد کے لیے للکارتی تھی۔ اس کی للکار سن کر لوگ انگریزوں پر ٹوٹ پڑتے۔ وہ خود تلوار اور بندوق سے دشمن کی صفوں کی صفیں الٹ دیتی تھی۔ کبھی پیدل، کبھی گھوڑے پر آتی اور بہادری کے جوہر دکھا کر چلی جاتی۔ ایک دن گھوڑے سے گری اور قید کرلی گئی۔ اسے انبالہ جیل بھیج دیا گیا، پھر پتہ نہیں چلا کہ اس کا کیا حشر ہوا۔
تھانہ بھون کی اصغری بیگم (ولادت 1811ئ)، جو باغی لیڈر قاضی عبد الرحیم کی والدہ تھیں، انہوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔ انہیں گرفتار کیا گیا اور زندہ جلا دیا گیا۔
مظفر نگر کی حبیبہ بیگم (ولادت 1833ئ) جنگ کرتے ہوئے گرفتار ہوئیں تو انگریزوں نے انہیں اور ان کی بہن کو پھانسی دے دی۔ مظفر نگر کی دو سو پچپن خواتین کو گولیوں سے اُڑا دیا، گیارہ خواتین کو پھانسی دے دی گئی جن میں سے ایک رحیمی خاتون بھی تھیں۔ سہسرام کی حاجی بیگم (م1859ئ) نے بھی انگریزوں سے جنگ کی۔ وہ گھڑ سواری کی ماہر تھی۔ اس نے دوسرے مجاہدین کے ساتھ مل کر انگریزوں سے ٹکر لی۔ انگریزوں سے مقابلہ آرائی میں ایک رقاصہ ’فرحت جہاں‘ کا نام ملتا ہے۔ اس کے جذبہ حب الوطنی نے جوش مارا تو اس نے چہرے پر نقاب ڈالا، تلوار کو بوسہ دیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر دشمن کی صفوں میں داخل ہوگئی۔ بالاخر جنرل ہُڈسن کی گولی کا نشانہ بن گئی۔
ایک دوسری رقاصہ ’عزیزن‘ تھی۔ کانپور میں انگریزوں کے خلاف بغاوت بھڑکی تو اس نے اپنے پیروں سے گھنگھرو اتارے اور تلوار اٹھالی۔ اس نے عورتوں کی فوج تیار کی۔ یہ عورتیں مردانہ لباس پہن کر ہاتھ میں تلوار لیے مجاہدین کی مدد کو نکل پڑتیں۔ عزیزن ان سب سے آگے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلتی۔ وہ شہر کی گلیوں اور چھاونیوں کے درمیان چکر کاٹتی رہتی۔ مجاہدین کو رسد پہنچاتی اور ان کے حوصلے بلند کرتی۔ بالآخر وہ گرفتار کر لی گئی۔ باغیوں کی فہرست تیار کی گئی تو عزیزن کا نام سرفہرست تھا۔ انگریز جنرل ہیولوک نے ہر ممکن کوشش کی کہ عزیزن اپنا قصور قبول کرلے تو اسے رہا کر دیا جائے گا لیکن اس کا جواب یہ تھا ”میں معافی مانگنے کے بجائے مر جانا پسند کروں گی“ مجبوراً اسے گولی مار دی گئی۔
1857ءکی جنگ آزادی میں مسلم خواتین میں سب سے زیادہ شہرت لکھنو کے نواب واجد علی شاہ کی بیگم حضرت محل کو حاصل ہوئی۔ وہ بہترین قائدانہ صلاحیت رکھتی تھیں۔ انہوں نے انگریزوں کے خلاف زبردست مزاحمت کی اور کافی عرصے تک برابر ان سے معرکہ آرائی کرتی رہیں۔ میرٹھ میں بغاوت کے بعد جب اس کے شعلے لکھنو پہنچے تو انہوں نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ نواب واجد علی شاہ کو انگریزوں نے کلکتہ بھیج دیا لیکن بیگم حضرت محل لکھنو ہی میں رہیں۔ انہوں نے شمالی ہند میں مجاہدین آزادی کی ایک بڑی تعداد کو جمع کرلیا۔ان میں مولانا فضل حق خیرآبادی بھی تھے جو بہادر شاہ کی جلا وطنی کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت بیگم حضرت محل کی فوج سے آملے تھے۔ انگریزوں نے جس آسانی سے دہلی پر قبضہ کرلیا تھا اس کے مقابلے میں لکھنو کی سرزمین نہایت سخت ثابت ہوئی۔ وہاں بیگم حضرت محل نے ان سے زبردست ٹکر لی۔ وہ مردانہ لباس پہن کر سر پر پگڑی باندھے، ہاتھ میں تلوار لیے گھوڑے پر سوار ہو کر خوں خوار شیرنی کی طرح گرجتی ہوئی انگریز سپاہیوں پر ٹوٹ پڑتیں اور صفوں کی صفیں درہم برہم کر دیتی تھیں۔ ان کی جاں بازی اور بہادری کا منظر دیکھ کر ڈبلیو ایچ رسل نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا:
”بیگم میں بڑی قابلیت اور ہمت دکھائی دیتی ہے۔ اس نے ہمارے ساتھ لگاتار جنگ کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ یہاں کی رانیوں اور بیگمات کی طاقت اور ہمت دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ زنان خانے کے اندر رہ کر بھی یہ کافی عملی اور دفاعی طاقت اپنے اندر پیدا کرلیتی ہیں۔“
مارش مین ‘ اپنی تصنیف ’ہسٹری آف انڈیا‘ میں بیگم حضرت محل کے بارے میں لکھا ہے:
”لکھنو میں باغیوں نے جو مزاحمت کی وہ ایسی سخت تھی کہ کبھی انگریزی فوج کو سابقہ نہ پڑا تھا، یہاں تک کہ دہلی میں بھی اتنی سخت مزاحمت نہیں کی گئی۔ بیگم اودھ کی موجودگی نے باغیوں میں بلا کا جوش بھر دیا تھا۔ نہایت غیر معمولی، مستعد اور سرگرم خاتون تھی“
تاریخ کا یہ ایک اہم واقعہ ہے کہ میجر ولیم اسٹیفن رائے کیس ہُڈسن(1821-1858) جو انگریزوں کے محکمہ جاسوسی کا سربراہ تھا اور جس نے آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کے تین شہزادوں کا قتل کیا تھا، اس کے لکھنو پہنچتے ہی بیگم حضرت محل نے اپنی جنگی حکمت عملی سے اس کو گرفتار کرکے پھانسی پر لٹکا دیا تھا۔ بیگم حضرت محل کی سربراہی اور قیادت میں مختلف محاذوں پر انگریزوں سے سخت جنگ لڑی گئی۔ بعض مواقع پر انگریزوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، لیکن غداروں کی وجہ سے پسپائی ہوتی گئی۔ گومتی کے کنارے لڑائی میں پچھتر ہزار سپاہی مارے گئے۔ دوسرے موقع پر بیگم کی کوٹھی کے ارد گرد زبردست معرکہ ہوا۔ کشتوں کے پشتے لگ گئے لیکن بیگم نے ہمت نہیں ہاری۔ جنرل اوٹرم نے متعدد مرتبہ صلح کی پیش کش کی، سالانہ وظیفہ کا وعدہ کیا، آخر جب اسے مخبروں سے معلوم ہوا کہ بیگم کہیں اور چلے جانے کا سوچ رہی ہیں تو اس نے پیغام بھجوایا کہ کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن بیگم نے ہر موقع پر صلح کی پیشکش کو ٹھکرایا اور شکست سے دوچار ہونے کے باوجود خود سپردگی نہیں کی۔ بالآخر اپنے بیٹے برجیس قدر کے ساتھ نیپال چلی گئیں جہاں چند برس گم نامی کی زندگی گزار کر 7 اپریل 1879ءکو ان کی وفات ہو گئی۔
جنگ عظیم اوّل(1914-1919ئ) کے بعد جب سامراجی طاقتوں نے خلافت عثمانیہ کے ٹکڑے کر کے آپس میں تقسیم کرلیے، اس دور میں ہندوستان میں تحریک خلافت نے برطانوی سامراج سے زبردست مورچہ لینے کا عزم کیا۔ گاندھی جی، مولانا محمد علی، شوکت علی وغیرہ اس تحریک کے سرخیل تھے۔ تحریک خلافت قومی جنگ ِآزادی میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ولایتی سامان کا بائیکاٹ، ترک موالات اور سامراجی استبداد کی مخالفت اس کے چند مظاہر تھے۔ اس دور میں قومی اتحاد اور یک جہتی کا بے مثال مظاہرہ ہوا اور تمام مذاہب کے ماننے والوں نے مل جل کر آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا۔ مسلم خواتین بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہیں۔ انہوں نے اپنے شوہروں، بھائیوں، بیٹوں اور دوسرے رشتے داروں کے ساتھ مل کر اور ان کے دوش بہ دوش تحریک آزادی کو تیز گام کیا۔ ان کی خدمات کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس زمانے میں ان کے مجاہد شوہروں کی صبح و شام جیلوں میں گزرتی تھیں وہ نہ صرف گھروں کا انتظام سنبھالتی اور بچوں کی پرورش کرتی تھیں بلکہ اپنے شوہروں کا حوصلہ بڑھاتی تھیں اور دیگر اسیران زنداں کے خاندانوں کی بھی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ آزمائش کے سخت ترین ایام میں بھی ان کے لبوں پر کوئی شکوہ نہ آتا تھا۔