سیاستمضامین

یکساں سیول کوڈ کا نفاذ ایک سیاسی چالبازی۔ ناقابلِ شکست متحدہ اپوزیشن کو ’’فرقہ وارانہ فسادات‘‘ کے ذریعہ منتشر کرنے کی کوشش ناکام ہوگیزعفرانی پارٹی کو2024ء میں اپنی شکست صاف طور پر نظر آرہی ہے

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد

٭ اپنی شکست کو جیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کے لئے یکساں سیول کوڈ نافذ کیا جارہا ہے۔
٭ کوشش یہ ہوگی کہ ملک کے مسلمان سڑکوں پر نکل آئیں۔
٭ فرقہ وارانہ دنگے ہوں گے اور ووٹس ہندو۔ مسلم اساس پر تقسیم ہوںگے۔
٭ بے روزگاری اور مہنگائی سے توجہ ہٹانے یکساں سیول کوڈ کا سہارالیاجارہاہے۔
چانکیہ ہندوستانی سیاست دانوں کا ایک مہاگرو ہے جس کے نزدیک اقتدار کے حصول کے لئے دھوکہ دہی ‘ فریب‘ مکاری یہاں تک کہ قتل و غارت گری بھی جائز ہے۔ اس کے نزدیک پڑوسی ریاستوں سے اچھے روابط رکھنا حکمران خاندان کے لئے مناسب بات نہیں البتہ پڑوسی کے پڑوسی سے اچھے روابط رکھے جاسکتے ہیں۔ اس کی مشہور زمانہ کتاب ’’ ارتھ شاستر‘‘ یعنی اصولِ حکمرانی کے مطابق دشمن کو زیر کرنے کیلئے جنگ کرنے سے بہتر اصول یہ ہے کہ مکر و دغابازی سے کام لیا جائے اور دشمن کو بغیر جنگ لڑے ہی شکست دی جائے۔ موجودہ زعفرانی حکومت چانکیہ ہی کے اصول حکمرانی کے رنگ میں ڈوبی نظر آتی ہے۔ حکمران طبقہ کرناٹک ریاست میں کراری شکست کے بعد سیخ پا ہوگیا ہے اور بوکھلاہٹ کے عالم میں اپوزیشن پر 20لاکھ کروڑ روپیوں کے گھٹالے اور سخت کارروائی کی دھمکی دے رہے ہیں اور اس بات کے امکانات کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ اپوزیشن لیڈرس کے خلاف انفورسمنٹ ڈائرکٹریٹ ‘ سی بی آئی‘ اور انکم ٹیکس حکام کو ان کی ڈیوٹی پر لگادیا جائے گا اور بڑے بڑے لیڈرس کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ مستقبل قریب میں تین ریاستوں چھتیس گڑھ‘ راجستھان‘ اور مدھیہ پردیش کے الیکشن کے رجحانات بتارے ہیں کہ ان تینوں ریاستوں میں بھی حکمران طبقہ کی کراری شکست ہوگی اور صرف گجرات اور اترپردیش ہی دو ریاستیں رہ جائیں گی جہاں حکمران طبقہ کا کچھ اثر باقی رہے گا ‘ لیکن آثار و قرائن ثابت کررہے ہیں کہ اترپردیش میں بھی زعفرانی پارٹی کا اثر اب کم ہونے لگا ہے۔ زعفرانی حکومت کو کسی بھی حال میں2024ء کے انتخابات میں جیت حاصل کرنی ہوگی لہٰذا صرف ایک ہی فرقہ وارانہ کارڈ کا حربہ باقی رہ جاتا ہے جس کا استعمال کرکے متحد ہوتی ہوئی اپوزیشن کا شیرازہ بکھیردیاجائے۔
سیاسی پنڈتوں کے مطابق تین تا پانچ فیصد ووٹوں کا فرق سیاسی توازن کو بگاڑسکتا ہے اور خصوصاً ایسی صورت میں کہ اترپردیش میں مسلمانوں کے ووٹوں کا فیصد20ہے اور دیگر ریاستوں میں دس تا پندرہ فیصد ہے۔ اگر مسلمانوں کے ووٹوں کو منتشر کردیا جائے تو اپوزیشن کا اتحاد کمزور ہوجائے گا اور زعفرانی پارٹی کو سہ بارہ اقتدار مل جائے گا۔
اب جبکہ اپوزیشن نے تہیہ کرلیا ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخاب ایک بمقابلہ ایک کی اساس پر ہوگا تو حکمران طبقہ کی شکست لازمی ہے لہٰذا اس میں دراڑ ڈالنے کے لئے چندرشیکھر راؤ ‘ وائی ایس آر کو استعمال کیا جائے گا تاکہ ایک بمقابلہ ایک کا فارمولہ متزلزل ہوجائے اور ووٹوں کی تقسیم ہوجائے لیکن ہندوستان کے ووٹرس زبردست سیاسی شعور رکھتے ہیں کیوںکہ ان ہی ہندوستانیوں نے ناقابل شکست کانگریس پارٹی اور اس پارٹی کے سربراہ آنجہانی اندراگاندھی کو دھول چٹائی تھی۔ لوگوں کو آج تک 1977ء میں کانگریس کی شکست یاد ہے۔
یکساں سیول کوڈ کے بارے میں وزیراعظم نے 27؍جون2023ء کو کچھ کہنا شروع کیا اور آئندہ تقریر میں بھی یہی موضوع ہوگا۔ مقصد یہ ہے کہ اس مذموم قانون سازی کے ذریعہ ہندوستان کے ووٹرس کو دو دھڑوں میں بانٹ دیا جائے تاکہ ووٹس کا توازن بگڑجائے۔ ایک مذموم سازش جس کے ذریعہ مسلمانوں کو سڑکوں پر اترنے کیلئے مجبور کیا جائے گا اور پھر جلوس پر سنگباری ہوگی اور الٹا اسی جلوس کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے گا کہ جلوسیوں نے مندر اور ہندوؤں کے گھروں دوکانوں پر سنگباری کی ایسی مثالیں بہت ہیں جہاں خود ریاستِ اترپردیش میں ہندو عبادت گاہوں کو تباہ کرنے اور مورتیوں کو توڑنے کا الزام ہندو تنظیموں کے کارکنوں پر آیا اور ان میں بجرنگ دل سرِ فہرست رہی۔ اس خبر کی تشہیر نہ ہوسکی اور تمام گودی چیانلس نے اس خبر یا ایسی خبروں کی پردہ پوشی کی لیکن مقامی پولیس نے CCTV کے فوٹیج کی بناء پر بجرنگ دل شرپسندوں کو گرفتار کیا اور ان پر مقدمات دائر کئے۔ اس ’’ حکمتِ عملی‘‘ سے تمام ہندی بیلٹ میں ہندو مسلم مساوات پھیل جائیں گے جس کا سیاسی فائدہ زعفرانی پارٹی اٹھائے گی۔
مسلمانوں کو اس سنگین مسئلہ پر صبر و تحمل اور بردباری سے کام لینے کی ضرورت ہے اور جہاں تک ہوسکے اشتعال میں نہ آئیں اور نہ ہی اپنی جانب سے کوئی ایسا موقع فراہم کریں جس کی وجہ سے انتہا پسندوں کو اشتعال اور بدامنی پھیلانے کا موقع ملے۔ اگر ہم اپنی شریعت پر قائم رہیں اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جو شریعت کے خلاف ہو تو یکساں سیول کوڈ سے خائف ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ علمائے دین فتویٰ جاری کرسکتے ہیں کہ اگر کوئی مسلم مرد یا خاتون یکساں سیول کوڈ پر عمل درآمد کے لئے عدالت سے رجوع ہوں تو ایسے کام کو خلافِ شریعت قراردے کر ’’ حرام ‘‘ قراردیاجائے اور اس عمل کو مذموم قراردیاجائے۔
دوروز قبل جمعیت العلمائے ہند کے سربراہ مولانا اسد مدنی نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ ہم یکساں سیول کوڈ کو خلافِ شریعت قراردیتے ہیں اور ہم اس کو تسلیم نہیں کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں جو مرد اور عورت کے حقِ وراثت سے متعلق تھا‘ مولانا نے کوئی شافی جواب نہیں دیا اور صرف کہا کہ مرد اور عورت کا حق مساوی نہیں ہوسکتا کیوں کہ مرد پر اپنے والدین کی خدمت اور دیکھ بھال فرض ہے جبکہ عورت شادی کے بعد اپنے گھر چلی جاتی ہے اور اس پر اپنے والدین کی خدمت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری نہیں آتی۔ یہ وضاحت کافی نہیں۔ مرد کو عورت کے بالمقابل جو دوگنا حقِ وراثت دیا گیا ہے‘ اس میں باریٔ تعالیٰ کی ایک حکمت ہے۔ مرد اور عورت برابر نہیں ہوسکتے۔ مرد کی ضروریات‘ اخراجات اور ذمہ داریاں عورت کے بالمقابل بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ مرد کو شادی کے وقت اپنی بیوی کو مہر میں ایک رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔ شادی کے بعد مرد پر اپنی بیوی اور اولاد کی کفالت‘ ان کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ چونکہ مرد محنت کرتا ہے ‘ اس کی غذا زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی ضروریات بھی عورت کے مقابلہ میں زیادہ ہوتی ہیں۔ دوسری جانب اگر عورت کو مرد کے بالمقابل برابر حقِ وراثت ملے تو یہ بڑی ناانصافی ہوگی۔ عورت اپنے شوہر سے مہر کی رقم وصول کرتی ہے اوراس کی اور اس کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اس کے شوہرپر ہوتی ہے۔ لہٰذا جہاں تک حقِ وراثت میں مساوات کا تعلق ہے ‘ اس مقام پر درست نہیں ہوگا کیوں کہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔ مولانا اسد مدنی نے اپنے انٹرویو میں متذکرہ بالا پہلو کو بالکل نظر انداز کردیا اور اپنی بحث کو صرف والدین کی خدمت تک ہی محدود رکھا۔
یونیفارم سیول کوڈ اب نوشتۂ دیوار نظر آتا ہے لہٰذا اس کے لئے تیار رہنا ہوگا۔ اگر ہم اپنے عائلی مسائل قرآن و احادیث کے مطابق حل کرلیں اور اس پر سب متفق ہوں تو کسی فکر و تردد کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
مسئلہ وراثت بعد از مرگ اٹھے گا۔ کیوں نہ زندگی ہی میں اس مسئلہ کا حل تلاش کریں
اگر بذریعہ زبانی ہبہ اپنی جائیداد ازروئے شریعت تقسیم کردی جائے تو بعد از مرگ یہ مسئلہ نہ اٹھے گا
حقِ وراثت مرنے کے بعد پیدا ہوگا۔ کوئی بھی بیٹا یا بیٹی باپ کی زندگی میں اپنے حقِ وراثت کا مطالبہ نہیں کرسکتے چاہے جائیداد اپنی کمائی ہوئی ہو یا آبائی۔ اسلامی قانون وراثت اس بارے میں بہت واضح ہے۔ ایسے مسائل بعد از مرگ پیدا ہوں گے اور اولاد خصوصاً بیٹیاں عدالت سے رجوع ہوکر یونیفارم سیول کوڈ کا سہارا لیںگی اور گنہ گار ہوںگی تو پھر کیوں نہ اپنی اولاد کو گناہ گار بننے سے روکا جائے اور زندگی ہی میں اس مسئلہ کا حل نکال لیا جائے ۔ اسلامی طریقہ ہبہ کے ذریعہ ایک میمورنڈم تیار کرکے اس عمل کو مکمل کیا جاسکتا ہے۔ اپنی تسلی کے لئے اس دستاویز کو آپ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔
اس عمل سے ساری مشکلات اور پریشانیاں حل ہوجائیں گی۔ ابھی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ حکومت بہت جلد وراثت ٹیکس قانون پاس کرواسکتی ہے۔ اس قانون کے بارے میں قبل ازیں دو تین مواقع پر کافی روشنی ڈالی گئی تھی۔ اگر یہ قانون لاگو ہوجائے تو ہر وراثت کی تقسیم کے وقت اتنا بھاری ٹیکس عائد ہوگا کہ جس کا ادا کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ لہٰذا اس مسئلہ کا حل بھی اصولِ ہبہ میں مضمرہے۔
لہٰذا اولین فرصت میں اس کام کی تکمیل کرلیجئے ۔ وقت کے تیور بگڑے ہوئے ہیں۔
سوال:- میں نے ایک مکان خریدنے کا معاہدہ کیا اور85فیصد رقم بطور اڈوانس ادا کردی اور رجسٹری کے لئے چھ ماہ کا وقت دیا گیا۔ فروخت کنندہ سے معاہدہ کرنے کے بعد میں نے اخبار میں اس معاہدہ یعنی اعلانِ خریدی کا اعلان کیا۔ میرے اصرار پر کہنے لگے کہ میں GPA ہوں ۔ کچھ دنوں بعد حقیقی مالک خود آرہے ہیں وہ خود رجسٹری کردیں گے۔ اس طرح وقت گزرتا رہا ۔ نہ تو GPA صاحب ہی آئے اور نہ ہی حقیقی مالک ۔ وہ منظر سے غائب ہوگئے۔
میں نے M.Seva سے تفصیلات حاصل کیں۔ E.C دیکھا اور ایک بیع نامہ کی نقل آ:ی۔ اس م کان کو کسی اور شخص کے نام GPA نے فروخت کردیا اور قبضہ بھی دیدیا۔ اب GPA نظر نہیں آرہے ہیں۔ وہ کہیں غائب ہوگئے ہیں۔ اس ضمن میں جناب کی رائے کی اشاعت کی درخواست کی جاتی ہے۔
XYZحیدرآباد
جواب:- آپ کے ساتھ شدید دھوکہ دہی ہوئی ہے ۔ ہمیں حیرت ہے کہ آپ نے فروخت کنندہ کو اتنا وقت کیوں دیا کہ وہ متذکرہ مکان کسی تیسرے فریق کو فروخت کردیں۔
اب آپ اس شخص اور اس جائیداد کے حقیقی مالک کے خلاف دھوکہ دہی کی شکایت کریں۔ ساتھ ہی معاہدہ بیع پر عمل درآمد کے لئے سیول کورٹ میں مقدمہ دائر کریں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰