سیاستمضامین

بــــجــــرنـــگ دل

ابوالحسن ایس ایم ندوی

2مئی 2023 کو کانگریس نے کرناٹک اسمبلی انتخابات کے لئے اپنا منشور (مینفیسٹو) جاری کیا،عوام سے کئے گئے کئیں ایک وعدوں میں سے ایک وعدہ یہ بھی تھا کہ پی ایف آئی اور بجرنگ دل جیسی تنظیمیں جو عوام میں نفرت کا بیج بوتی ہیں ان پر پابندی عائد کی جائے گی،یہ سننا تھا کہ اصل مدوں سے دھیان بھٹکانے میں ماہر بی جے پی کو کانگریس پر حملہ کا ایک سنہرا موقع مل گیا،وزیر اعظم مودینے تو اس پورے معاملہ کو ہنومان سے جوڑتے ہوئے کہا کہ کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ کانگریس نے اب ہنومان کو تالا لگانے کا عزم کیا ہے،پہلے شری رام کو تالے میں بند کر دیا گیا تھا،یہاں پر مودی کا اشارہ رام مندر کی طرف تھا،بہر کیف!یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ بجرنگ دل پر پابندی کی بات کی گئی ہو،بلکہ ماضی میں تو اس پر پابندی عائد کی جاچکی ہے،اور کانگریس کے علاوہ دوسری جماعتوں نے بھی پابندی عائد کرنے کی بات کہی ہے۔۔۔تو آئیے اس تنظیم کے متعلق ذرا تفصیل سے جانتے ہیں۔۔۔۔
یوں تو بجرنگ دل اپنے پر تشدد مظاہروں کے لئے جانی جاتی ہے،اپنے 40 سالہ دور میں اس تنظیم نے کئیں مرتبہ عیسائیوں اور مسلمانوں کو اپنے تشدد کا نشانہ بنایا ہے،صرف اس شک کی بنیاد پر کہ غیر قانونی طریقہ پر مذہب تبدیل کیا جا رہا ہے،جسے وہ "لو جہاد” کا نام بھی دیا کرتے ہیں،کئی مرتبہ تو خود بی جے پی کی اعلی قیادت نے سنگھ پریوار سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے انھیں قابو میں رکھنے کی ہدایات بھی دیں ہیں۔۔۔
بجرنگ دل کا قیام: بجرنگ دل رجعت پسند تنظیم وشوا ہندو پریشد کییوتھ ونگ ہے،جس کا قیام1984ء میں اس مقصد کے ساتھ عمل میں آیا تھا کہ رام جنم بھومی کی تحریک میں نوجوانوں کو استعمال میں لایا جائے، جس تحریک کا مقصد یہ تھا کہ بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کا قیام ہو۔
در اصل بجرنگ دل کا قیام8 اکتوبر 1984ء کو اس وقت عمل میں آیا جب سنتوں نے ایودھیا سے رام جنم بھومی رتھ یاترا کا آغاز کرنا چاہا،لیکن اس وقت کی اترپردیش انتظامیہ نے اس کے لئے سکورٹی فراہم کرنے سے انکار کر دیا ، لہذا وشوا ہندو پریشد نے نوجوانوں کو ہی اس کا ذمہ سونپ دیا،کہا جاتا ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں ایودھیا میں نوجوان جمع ہو گئے اور اپنے فرائض کی ادئیگی میں کامیاب بھی رہے،ان کی اپنی ویب سائٹ کے مطابق بجرنگ دل کا قیام صرف یو پی کے نوجوانوں کو رام جنم بھومی کی تحریک سے جوڑنے کی غرض سے عمل میں آیا تھا۔
ہوا یوں کہ اکتوبر 1984 کو لکھنؤ میں وشوا ہندو پریشد کا اجلاس ہوا،جس میں "ونئے کاٹیار”( جو اس وقت پریشد کے پرچارک تھے ) نے پریشد کے صدر اشوک سنگھل کو "یوتھ ونگ” کےقیام کا مشورہ دیا ،جس پر عمل کرتے ہوئے اس کا نام "بجرنگ دل” رکھا گیا، چونکہ "بجرنگ بلی” ہندو دیوتا "ہنومان ” کاہی ایک نام ہے،لہذا اس سے رام جنم بھومی کی تحریک سے اس کی وابستگی کا اظہار کیا گیا،دسمبر 1992ء میں بابری مسجد کو منہدم کیا گیا،جس میں دل سے جڑے لوگوں نے اہم کردار ادا کیا۔
تاہم اس کے بعد بابری مسجدکا معاملہ کورٹ میں چلا گیا اور بی جے پی نے سیاست میں قدم جمانے شروع کئے ، وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل جیسی تنظیموں سے بی جے پی کو جوکام لینا تھا اس میں وہ کامیاب ہو چکے تھے،اب آہستہ آہستہ ان سے علاحدگی اختیار کی گئی،جس بنا پر پریشد سے جڑے کئی لوگ بی جے پی سے اپنی ناراضگی کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ انھیں استعمال کرکے کنارے لگا دیاگیا ، بابری مسجد کے انہدام کے بعد نرسمہا راؤ حکومت نے بجرنگ دل پر پابندی عائد کی تھی ،جس کو ایک سال بعد ہٹا دیا گیا۔
لندن کی King’s India Institute کے پروفیسر Christophe Jaffrelot انڈین اکسپریس میں بجرنگ دل کے متعلق لکھتے ہیں کہ "بجرنگ دل میں آر ایس ایس کے نظم وضبط کا فقدان پایا جاتا ہے،1993ء تک تو بجرنگ دل کا کوئی یونیفورم نہیں تھا،بجرنگ دلی ایک دوسرے کو زعفرانی رنگ کی ایک رومال جسے وہ اپنے سر پر باندھتے ،اور جس پر رام کا لفظ لکھا ہوتا اس کے ذریعے پہچانتے تھے”، Jafferlotآگے لکھتے ہیں کہ 11 جولائی 1993ء کو بجرنگ دل کے لئے ایک یونیفورم کا تعین کیا گیا (نیلے رنگ کے شورٹس ،سفید کرتا اور زعفرانی رومال) ، یونیفورم کے ساتھ ساتھ ایک کتابچہ بھی دیا گیا ، جس میں نظم وضبط کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا کہ بغیر نظم وضبط کے کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی” ، تعجب کی بات یہ تھی کہ جس تنظیم سے سازش کے تحت ملک کے قوانین کو تار تار کرنے کا کام لیا گیا ہو، اپنے مقصد کے حصول کے بعد انھیں ہی نضم وضبط کا درس دیا جا رہا تھا!!!،سوال یہ ہے کہ نظم وضبط کی تعلیم بجرنگ دل کے قیام کے دس سال بعد کیوں دی جارہی ہے؟کیا محض یہ سمجھنے میں دس سال لگ گئے کہ اس جماعت میں نظم وضبط کا فقدان پایا جارہا ہے؟؟ ،خیر!! موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔۔۔،اس کے بعد بھی بجرنگ دل سے منسلک لوگوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ، جا بجا لوگوں کو پریشان کرنا، لوگوں کی نجی زندگی میں مداخلت کرنا ، ایسے فن کاروں کے خلاف پر تشدد مظاہرے کرنا جو ان کے مطابق ہندو جذبات کو مجروح کرتے ہیں‘اس سے بڑھ کر یہ کہ بجرنگ دل پر قتل میں ملوث ہونے کے الزمات بھی لگتے رہے ہیں،1999ء میں GarhamStainesاور ان کے بچوں کا اڑیسہ میں قتل کا الزام ہو ،یا پھر 19گزشتہ سال جولائی کے مہینے میں 19 سالہ مسعود کے قتل کا الزام ہو ۔
بجرنگ دل پر پابندی تو صرف ایک ہی مرتبہ عائد کی گئی ، البتہ جا بجا اس کو بین کرنے کی بات کی جاتے رہی ہے،جیسے 2013ء میں بی یس پی لیڈر مایاوتی نے ، 2008ء میں لوک جن شکتی پارٹی کے لیڈر رام ولاس پاسوان نے مطالبہ کیا تھا، اور خود کانگریس بھی 2008ء میں اس پر پابندی کا مطالبہ کرچکی ہے۔
2002ء میں اس وقت کے وزیر اعظم اور قد آور بھاجپا لیڈر اٹل بہاری واجپائی نے بھی بجرنگ دل سے قابو میں رہنے کی گزارش کی تھی ، جس طرح 2008ء میں ایل کے اڈوانی نے کچھ اسی طرح کی درخواست کی تھی۔