یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا دوست نہ بنائو
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کاشمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کردیتا ہے۔

محمد عبدالحفیظ اسلامی
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ۰ۘؔ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۰ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِــمِيْنَ (سورۃ مائدۃ۔ آیت۔ ۵۱)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔ یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کاشمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کردیتا ہے۔
باطل سے دوستی اور منافقت:
مذکورہ بالاآیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ چار باتیں بیان فرمائے ہیں۔
۱۔ ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو رفیق نہ بنائو۔
۲۔ یہود و نصاری تو یہ ایک د وسرے کے دوست ہیں۔
۳۔ جوکوئی بھی یہودیوں اور عیسائیوں کی دوستی کی چکر میں پڑا اس کا شمار انہی میںہے۔
۴۔اللہ تعالیٰ ظالموں کو سیدھی راہ نہیں بتاتے۔
یہودی و نصرانی اور کافروں سے دوستی کرنے میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بغیر اہل ایمان کی زندگی اور اسلامی اجتماعیت کو ہمیشہ خطرہ لگا رہتا ہے۔ کیونکہ باطل پرست ہر اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں جس میں اسلام کو اہل ایمان کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔
اس لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے مختلف موقوں پر حسب ضرورت اور خاص طور پر اہل ایمان کا نام لیتے ہوئے فرمایا کہ یہود و نصاری مشرکین وغیرہ سے ہوشیار رہنا اور ان کو ہمراز نہ بنانا اور نہ ہی ان کو اپنا رفیق بنانا۔
مضمون کے آغاز میں جو آیت مبارکہ پیش کی گئی ہے اس کے علاوہ پوری قرآن میں ٹھیک اسی طرح آٹھ مقامات پر یہی بات مختلف انداز میں مضمون کی مناسبت کے ساتھ آئی ہے۔
سورۃ آل عمران آیت ۱۰۰ میں فرمایا ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم نے ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی تو یہ تمہیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے۔
اسی سورۃ کی آیت ۱۱۸ میں فرمایا ’’ اپنی جماعت کے لوگوں کے سوا دوسروں کو اپنا رازدارنہ بناؤ۔
اسی سورۃ کی آیت ۱۴۹ میں فرمایا ’’اگر تم ان لوگوں کے اشاروں پر چلو گے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تم کو الٹا پھیر لے جائیں گے‘‘
سورۃ نساء آیت ۱۴۴ میں فرمایا ’’اے ایمان والو مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔
سورۃ المائدۃ آیت ۵۷ میں فرمایا ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو تمہارے پیشرو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمہارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنالیا ہے انہیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ‘‘۔
سورۃ توبہ آیت ۲۳ میں فرمایا ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بناو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں‘‘۔
سورۃ الممتحنہ آیت۔۱۔ میں فرمایا ’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے کیلئے اور میری رضا جوئی کی خاطر (وطن چھوڑ کر گھروں سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ‘‘۔
اسی سورۃ کی آیت ۱۳ میں فرمایا ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، ان لوگوں کو دوست نہ بناو جن پر اللہ نے غضب فرمایا ہے‘‘۔
غرض کہ مضمون ہذا کیلئے جو آیت پیش کی گئی ہے اس میں بھی وہی بات آرہی ہے کہ اے ایمان والو دیکھو یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ۔
شان نزول:
ایک روایت میں ہے کہ یہ آیتیں عبداللہ بن ابی بن سلول کے بارے میں اتری ہیں، ان آیات کی شان نزول میں بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت انصاریؓ اور رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی دونوں ہی عہد جاہلیت سے یہود کے حلیف چلے آرہے تھے۔
جب بدر میںمسلمانوں کو فتح حاصل ہوئی تو عبداللہ بن ابی نے بھی اسلام کا ’’اظہار‘‘ کیا۔ ادھر بنو قینقاع کے یہودیوں نے تھوڑے ہی دنوں بعد فتنہ برپا کیا یعنی (حضور ﷺ سے جنگ کی) اور خدا نے انہیں نیچا دکھایا تو ’’عبداللہ بن ابی‘‘ (ظاہری مسلمان) تو ان کی حمایت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کرنے لگا یعنی یہودیوں کو بچانے کی ہر ممکن کوششیں کی۔ اس کے برعکس (مخلص مسلمان) حضرت عبادہ بن صامت انصاریؓ نے باوجود یکہ یہ بھی ان یہودیوں کے حلیف تھے لیکن انہوں نے ان سے صاف برات ظاہر کی۔ یعنی معاہدہ ختم اور ترک موالات کا اعلان کردیا۔
رئیس المنافقین:
عبداللہ بن ابی بن سلول جو کہ جنگ بدر کے بعد اپنے اسلام کا اظہار کیا تھا لیکن اس کا اسلام لانا،مسلمان ہونا ظاہری تھا اور اس کے دل میں اسلام، مسلمان، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نہیں اتری تھی مگر اپنے مسلمان ہونے کا دعوی کیا کرتا تھا تو دوسری طرف یہود سے اس کی گہری دوستی تھی صرف عبداللہ بن ابی ہی نہیں بلکہ اس کے پیرو (دیگر منافقین ) کا بھی یہی کچھ رویہ تھا۔
فرمان خدا تعالیٰ:
ایسے حالات میںاحکام خدا وندی کا نزول ہورہا ہے کہ اے ایمان والو یہود و نصاری کو اپنا رفیق نہ بناؤ، کیونکہ یہ تمہارے دوست، رفیق و ہمراز نہیں ہوسکتے اصل میں یہ صرف اپنے حلقوں تک ہی دوستی کا حق ادا کرتے ہیں یعنی یہودی یہودی کے درمیان۔ نصاری، نصاری کے ہی دوست ہوسکتے ہیں۔ اور یہ کہ یہود و نصاری اسلام کے خلاف متحد ہوتے، پھر کس طرح تمہارا ان کا میل جول ہوسکتاہے جبکہ ان کی حالت یہ ہے کہ اسلام کو مٹانے دعوت حق کودبانے، اسلامی تحریک کو ختم کرنے کیلئے رات دن سازشیں کیا کرتے ہیں۔ لہٰذا آیت کے اس فقرے میں اہل ایمان کو حکم دیا جارہا ہے کہ یہود و نصاری سے (گاڑی دوستی نہ کریں) ابتک جو موالات تھے اسے ترک کریں۔ شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیراحمد عثمانیؒ اس سلسلہ میں تحریر فرماتے ہیںکہ ’’مروۃ ‘‘ اور ’’حُسن سلوک ‘‘ یا ’’رواداری ‘‘ کا برتاؤ ان کفار کے ساتھ ہوسکتا ہے جو جماعت اسلام کے مقابلہ میں دشمنی اور عناد کا مظاہرہ نہ کریں۔ جیسا کہ سورۃ ’’ممتحنہ‘‘ میں اس کی تصریح ہے۔
مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو سورۃ النساء کی آیات ۱۴۴ تا ۱۴۵ کا مضمون اس میں تفصیلی طور پر بیان کیا گیا علاوہ ازیں سورۃ ال عمران کے مضمون میں بھی اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
یہود و نصاری سے دوستی کا انجام
آخری بات یہ فرمائی گئی کہ جو کوئی تم میں سے ان سے دوستی کی تو ان کا شمار بھی ان ہی (یہود و نصاری ) میں ہوگا۔
یہاں پر عام حکم دیا جارہا ہے کہ، اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے! آیت کے آخر میں ایک اہم بات بتائی جارہی ہے کہ یقیناً اللہ ظالموں کواپنی رہنمائی سے محروم کردیتا ہے۔ یعنی اتنی ساری تفصیلات بیان کرنے کے بعد بھی جو کوئی پھر ان یہود و نصاری سے (گاڑی) دوستی کرے گا اور ان کی دوستی میں اپنی خیر، فلاح و کامیابی تصور کرے گا، اسلامی طاقت اور رسالت کی عظمت کا اندازہ نہیں کرے گا، اسلام کے دامن رحمت میں، جسے فلاح و کامیابی دکھائی نہیں دیتی، مختصر یہ کہ اللہ کی پناہ ڈھونڈنے کے بجائے یہود و نصاری کی دوستی میں اور ان سے قلبی لگاو رکھنے میں اپنی خیر و عافیت تصور کرتا ہے تو، دراصل ایسا شخص ظالم ہے، اور ایسے ظالموں کو اللہ تعالیٰ اپنی رہنمائی سے محروم کردیتے ہیںپھر اس کے بعد اس شخص کو حقیقی نفع و ضرر دکھائی نہیں دیتا وہ گمراہی میں بہت دور نکل جاتا ہے۔
مخلص اہل ایمان:
حقیقی اہل ایمان ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) نے دین اسلام کو دل سے قبول کیا، اللہ ہی کو اپنا حامی و مددگار جانا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کو نہ چھوڑا دین اسلام پر ہی مرمٹے، تو اللہ نے بھی دنیا و آخرت کی کامیابی کو ان کے نظروں کے سامنے کھڑا کردیا یعنی ان کے صالح اعمال نے ان کے اندر ایک یقین کی کیفیت پیدا کردی یہاں تک کہ مکہ فتح ہوگیا، باطل مٹا اور حق غالب آگیا۔
حاصل کلام:
آیت مبارکہ کا حاصل کلام یہ ہیکہ اہل ایمان یہود و نصاری کو اپنا رفیق نہ بنائیں۔ رفیق سے مراد ان سے گاڑی دوستی نہ کریں۔ جس طرح اہل ایمان اپنے درمیان رکھتے ہیں اور نہ ہی ان لوگوں سے قلبی لگاو رکھیں جس طرح ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے متعلق رکھتا ہے اور نہ ہی ان یہود و نصاری و دیگر خدا کے باغی لوگوں سے مسلمانوں کے اجتماعی معاملات، مسائل و تنازعات کی یکسوئی کیلئے رجوع کریں۔
موجودہ حالات میں مسلم ممالک کے درمیان یا مسلم ممالک کے اندرون جو کچھ مسائل اُبھر رہے ہیں۔ جو کچھ تنازعات چل رہے ہیں اس کی یکسوئی کیلئے یہود و نصاری، منکرین حق و خدا بیزار قوموں کی طرف رجوع ہونا اس بات کا مظہر ہے کہ مسلمان اپنے اس طرز عمل سے ثابت کررہے ہیںکہ ہم اپنے مسائل و تنازعات آپس میںحل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جبکہ اہل ایمان کو یہ تاکیدکی گئی ہے کہ ’’تمہارے درمیان کچھ جھگڑے وقوع پذیر ہوں یا فکر و نظر میں اختلاف پایا جاتا ہو یا تمہارے درمیان کسی معاملہ میں رائے منقسم ہوجائے تو ان صورتوں میں اپنے مقدمات کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیردو اور اس سلسلہ میں اپنے میں سے کسی کو بڑا بنالو پھر یہاں سے جو بھی فیصلہ ہوجائے ملت اسلامیہ کی بھلائی اور اسلام کی نیک نامی اور سب سے بڑی اور اہم بات یہ کہ آخرت کی سرخروی کیلئے اسے سربسر قبول کرلیا جائے۔
٭٭٭