مضامین

26/11 کے دہشت گردانہ حملہ کی آڑ میں ہندوتوا دہشت گردوں کی کارروائیاں جنہیں بے نقاب کیا جرات مند پولس آفیسر ایس ایم مشرف نے

محمد ضیاءالدین

ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی ۲۶/ نومبر کو بمبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کی دکھ بھری یادیں تازہ ہوگئیں اور دل اداس ہوگیا۔ ۲۰۰۸ میں اسی دن بمبئی کے تاج ہوٹل اور وی ٹی اسٹیشن پر دہشت گردوں کے حملے میں پچاس سے زیادہ بے گناہ لوگوں نے اپنی جان گنوائی تھی، وہیں اس موقع پر ایک نہایت فرض شناس اور ایماندار آفسر ہیمنت کرکرے بھی حملہ آوروں کی گولی کا نشانہ بنے تھے۔ ہیمنت کرکرے وہ ایک غیر متعصب پولیس آفسر تھے جس نے مالیگاؤں و دیگر مقامات پر مساجد میں ہوئے بم حملوں کے اصل مجرمین (جن کا تعلق ہندو توا دہشت گرد تنظیموں سے تھا) کو بے نقاب کیا تھا۔ پتہ نہیں کیا بات تھی کہ جیسے ہی ہیمنت کرکرے کی موت کی خبر سامنے آئی، دیکھنے سننے والوں کے (جو کہ عام لوگ تھے) منہ سے بے ساختہ نکلا کہ آخر کار فرقہ پرستوں نے مار ڈالا۔ اس سانحہ کے آغاز سے یہ سارا معاملہ مشتبہ نظر آرہا تھا اور اس پر اخبارات و دیگر ذرائع سے سوالات کھڑے کیے جارہے تھے اور سبھی کو لگ رہا تھا کہ یہ کوئی سازش ہے۔ تاہم ملک کے ذرائع ابلاغ نے اپنی روش کے عین مطابق اسے مسلم دہشت گردی سے جوڑ کر ہندوستان کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی اپنی مذموم کوشش جاری رکھی جس کا سلسلہ گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری تھا۔ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ آزادی کے بعد ہی سے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ آزادی سے قبل کے دور سے ہی ایک متعصب طبقہ مسلمانوں کی ایذا رسانی کے لیے نت نئی سازشوں میں مصروف تھا اور ان کے ذریعہ فسادات کی آگ پھیلاکر مسلمانوں کی جان و مال اور عزت آبرو کے درپئے رہا ہے۔ گزشتہ صدی کے آخری دہے اور موجودہ صدی کے آغاز میں دہشت گردی کے نام پر تعلیم یافتہ لڑکوں کی گرفتاری اور ظالمانہ قوانین کے تحت انھیں جیلوں میں ٹھونسنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس سے مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر ہراسانی پھیل گئی۔ ایسے ہی ایک واقعہ میں پربھنی کے ایک نوجوان خواجہ یونس کو پولیس لاک اپ میں اذیتیں دے کر قتل کرنے کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔ افسوس کہ اس کے قاتل آج بھی قانونی سزا سے بچے ہوئے ہیں اور ان ہی واقعات کو میڈیا نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر پھیلانے اور مسلمانوں اور اسلام کو بد نام کرنے کے لیے بے دریغ استعمال کیا اور وہ عام لوگوں کے اذہان میں یہ بات بٹھانے میں کامیاب ہوگئے کہ دہشت گردی یعنی مسلمان اور جہاں بھی کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوگا، لازمی طور پر مجرم مسلمان ہی ہوں گے۔ گویا کہ دہشت گردی کا دوسرا نام مسلمان! شروع شروع میں مسلمان بھی ان واقعات سے بری طرح بد حواس ہوگئے کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ دوسری طرف یہ معاملہ ملک کی سلامتی سے جڑا ہونے کے سبب اور پولیس کی سخت کارروایؤں اور میڈیا کی ہرزہ سرایؤں کی وجہ سے مسلمان اس قدر خوف زدہ تھا کہ اس کے ہوش و حواس گم ہوگئے تھے اور عام لوگ ان وارداتوں میں مسلمانوں کے ملوث ہونے کی کہانیوں پر یہ کہ نہ صرف یقین کر رہے تھے بلکہ اس پر شرمندگی بھی محسو س کررہے تھے اور یوں مسلمان دہشت گردی کے کٹہرے میں مجرم بنا کر کھڑا کردیا گیا تھا۔ ان واقعات کے بڑھتے سلسلے میں یہ دیکھنے میں آیا کہ دہشت گردی کے نام پر ایسے نوجوان گرفتار کیے جانے لگے جن کا نہ تو کوئی مجرمانہ ریکارڈ تھا نہ کوئی مجرمانہ سرگرمی نہ ہی ان کی ظاہری حالت ایسی کسی سرگرمی کی متحمل نظر آرہی تھی تب یہ بات کھل کر سامنے آنے لگی کہ یہ سارا معاملہ نہ صرف فرضی ہے بلکہ کسی منظم سازش کے تحت ہے۔ یہ تو واضح نظر آرہا تھا کہ یہ ایک سازش ہے، لیکن یہ سازش کیا ہے اور اس کے پس پشت کون ہے، یہ سمجھنے سے عام آدمی قاصر تھا کہ وہ اس کی تہہ تک پہنچنے کا اہل نہیں تھا۔ وہ سوائے تلملانے اور اظہار افسوس کے کچھ نہ کر سکتا تھا کہ اس کی نظروں کے سامنے فرضی واقعات کو حقائق کا روپ دے کر ایک سماج کو بدنام کیا جارہا تھا اور میڈیا آئے دن ان کے زخموں پر نمک چھڑک کر ان کی بے بسی کا مذاق اڑا رہا تھا اور آے دن یہ واقعات پیش آرہے تھے جن کے نام پر مسلم نوجوانوں کو ان کے گھر سے اٹھایا جارہا تھا۔ اس سارے منظرنامے میں مسلمانوں نے اس وقت سکون کا سانس لیا جب اے ٹی ایس آفسر ہیمنت کرکرے اور ان کی ٹیم نے مالیگاوں بم دھماکے کی باریک بینی سے تحقیقات کرکے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہندوتوا دہشت گردوں اور ان کی سرپرست تنظیموں اور ان کی منظم غیر قانونی مجرمانہ اور ملک دشمن سرگرمیوں اور ان کے مذموم مقاصد کو طشت از بام کردیا جس سے سارے ملک میں ہلچل مچ گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک ایماندار آفسر کی ملک کے مفاد میں کی گئی تحقیقات کی ملک بھر میں اور سرکاری سطح پر پذیرائی کی جاتی جو کہ ایک اصولی بات ہے لیکن ہوا یہ کہ کرکرے کی ان تحقیقات کے نتیجے میں نہ صرف ملک کا ایک بڑا طبقہ ان کا دشمن ہوگیا بلکہ سرکاری سطح پر ان کی کاوشوں کی خاطر خواہ پذیرائی نہیں ہوئی اور وہ ذہنی طور پر بے حد تناو کا شکار ہوگئے اور یہی وجہ تھی کہ ان کے مارے جانے کی خبر سنتے ہی لوگ بے ساختہ کہہ اٹھے کہ ان کو ان کی ایمانداری کے سبب ختم کردیا گیا، تاہم سنگھ پریوار کا یہ بیانیہ لوگوں (حتیٰ کہ مسلمانوں) کے ذہن میں بھی پیوست کردیا گیا تھاکہ دہشت گردی یعنی مسلمانوں کا کام اور دہشت گرد یعنی کہ مسلمان۔ یہ وہ دور تھا جب اڈوانی جیسے لوگ لوگوں کے ذہن میں مسلمانوں کو دہشت گرد کی حیثیت سے ٖفٹ کرنے کے لیے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ صحیح ہے کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں ہوتا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر دہشت گرد مسلمان ہی ہوتا ہے۔ اسی منظرنامے میں بمبئی کے تاج ہوٹل پر دہشت گردانہ حملے کا واقعہ پیش آیا جس میں پچپن بے گناہ لوگ مارے گئے۔ اب تک یہ ہوتا تھا کہ ہر دہشت گردانہ واقعہ کے بعد لوگ خاموشی سے ایجنسیوں کی بات پر یقین کر لیتے تھے لیکن بمبئی بم دھماکوں کے بعد پہلی باریہ دیکھنے میں آیا کہ کئی لوگوں نے ان واقعات پر سوالات اٹھائے۔ حتیٰ کہ مرکزی وزیر اے آر انتولے نے بھی اس سارے معاملہ کی تحقیقات کی مانگ کی جس پر میڈیا اور فرقہ پرستوں نے کافی واویلا کیا تاہم ممبئی کے اس دہشت گردانہ حملوں سے یہ بات سامنے آئی کہ دال میں کچھ کالا ہے اور یہ کالا کیا ہے، یہ سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں تھی اور عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر تھا اور عام لوگوں کی اس الجھن کو دور کیا مہاراشٹر کے ریٹایرڈ انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس ایم مشرف نے جنہوں نے نہایت جواں مردی کا ثبوت دیتے ہوئے ایک کتاب لکھی ”ہُو کِلڈ کرکرے“ (کرکرے کا قتل کس نے کیا) اس میں انہوں نے دہشت گردی میں ملوث سرکاری ایجنسی اور ان لوگوں کو بے نقاب کیا جو خود دہشت گرد ہیں مگر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف دہشت گردی کا واویلا کرکے بے گناہوں کو پھنساتے ہیں۔ ایس ایم مشرف نے یہ بات کسی اندازے یا قیاس آرائی کی بنیاد پر نہیں کہی بلکہ واقعات، شواہد اور اخبارات کی رپورٹنگ کی روشنی میں یہ بات سامنے لائی کہ اس ساری سازش کے پس پشت منووادی برہمن واد ہے۔ انگریزی میں لکھی گئی اس کتاب کے جلد ہی دیگر زبانوں بالخصوص مراٹھی میں ہونے والے ترجمہ کے سبب یہ کتاب مہاراشٹرا کے عام و خاص تک پہنچی اور اس نے کافی مقبولیت پائی۔ وہیں اس کتاب نے عام لوگوں کو ان حقائق سے واقف کرایا جس سے عام غیر مسلم ناواقف تھے۔ خاص بات یہ ہے کہ اپنی اس کتاب میں مصنف نے غیر معمولی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان برہمن وادیوں کی جانب سے کی جانے والی ریشہ دوانیوں، سازشوں اور قانون شکنیوں کو بڑے ہی واشگاف انداز میں بیان کیا ہے۔کتاب کے پہلے باب میں مصنف نے ہندو مسلم فسادات کی تاریخ بیان کرتے ہوئے کہ ہندوستان میں پہلا فساد 1893 میں ہوا اور یہیں سے فسادات کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ بھی ہے کہ ان فسادات میں برہمنوں کا دماغ رہا ہے، یہاں مصنف نے برہمنوں کے بدلتے رویہ کے بارے میں بتایا کہ عہد وسطی اور اس کے بعد کے دور میں برہمنوں کے عمومی تعلقات مسلمانوں کے ساتھ خوشگوار رہے۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ برہمنی عناصر ۱۸۹۳ سے تاحال جان بوجھ کر مسلم مخالف فضاء بناکر ہندو مسلم فسادات کراتے ہیں؟ وہیں انہوں نے گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران ایجنسیوں میں برہمنی عناصر کی بھرتی، سراغرساں ایجنسیوں کی جانب سے ہندو فرقہ پرستوں کی ملک و دستور مخالف سرگرمیوں کی بر وقت اطلاع نہ دینے اور ایسے فرقہ پرست عناصر کو بچانے کے لیے کی جانے والی جعلسازی و سازشوں، دہشت گردی کے واقعات کی میڈیا کے ذریعہ رنگ آمیز رپورٹنگ کے ذریعہ مسلمانوں کے تئیں ملک و برادران وطن کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کی منظم سازش ممبئی دہشت گرد حملے کی اہم و حساس معلومات کو چھپاے رکھنے جیسی سنگین مجرمانہ حرکت و مشتبہ افراد کو عہدے دیے جانے جیسے موضوعات پر سوال کھڑے کرنے کے بعد برہمنوں کے مسلمانوں کے تئیں نفرت آمیز رویہ کا تجزیہ کرتے ہوئے برہمنوں کے وقت کے ساتھ بدلتے رویہ کو نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہوے بتایا کہ وہ برہمن جو مسلمانوں کے سات سو سالہ دور میں ہمیشہ مسلم حکمرانوں کے ساتھ رہے بلکہ ان کے انتظام حکومت کو مضبوط بنانے کے لیے کارکرد رہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں سے بھی ان کے نہایت اچھے تعلقات رہے آخر کیوں اتنے بدل گئے جبکہ مسلم حکمرانوں کے دور میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ برہمنوں نے کبھی کسی مسلم حکمراں کے خلاف جنگ و جدل تو دور کی بات کبھی آواز بھی اٹھائی ہو، اچانک کیوں مسلمانوں کے دشمن ہوگئے ؟ اس کے جواب میں انہوں نے نہایت تفصیلی جائزہ پیش کیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ۱۸۹۳ میں ہندو سماج ایک انگڑائی لے کر اٹھا، بالخصوص وہ طبقہ جو ہندو مذہب میں نچلے درجہ کا تھا، اس میں بیداری کی ایک لہر دوڑگئی اور نئی تعلیم کے سبب ان میں ایسے لوگ پیدا ہوگئے تھے جو یہ جاننے کے لیے بے چین تھے کہ سماج میں ان کے طبقات کیوں نسل درنسل غربت، افلاس اور جہالت کے شکار اور راحت سے عاری اور ذلت آمیز زندگی گزاررہے ہیں۔ ان کی تعلیم و تحقیق کے سبب وہ ولوگ اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ جو ذلت آمیز زندگی گزاررہے ہیں، وہ ان کی خوشی سے نہیں بلکہ وہ یہ زندگی گزارنے پر مجبور کیے گئے ہیں اور اس کی جڑ میں کوئی اور نہیں برہمن ہیں۔ مصنف کے مطابق ۱۹ویں صدی کی اس اصلاحی تحریک نے برہنوں کو بری طرح خوف زدہ کیا جو برہمنی نظام پر قائم سماجی نظام کو بدلنے کے لیے وجود میں آئی تھی جس نے پورے ملک خاص طور پر مہاراشٹر اور جنوب کی ریاستوں میں اپنا اثر دکھانا شروع کردیا تھا۔ مہاراشٹر میں جیوتی با پھولے جنوبی ہند میں راما سوامی پیریار اور نارائین گرو جیسے اصلاح پسند وں کے میدان عمل میں آنے اور ان کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت نے برہمنوں کو خوفزدہ کردیا تھا۔ انگریز جو ان کے سرپرست تھے، ان کا بھی چل چلاؤ تھا۔ برہمن عوامی بیداری کے نتیجے میں عوام کی جانب سے انتقام کے ڈر سے خوف زدہ تھے اور اس سے بچنے کا ان کے پاس ایک ہی نسخہ تھا کہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاؤ اور بد قسمتی سے ان کا یہ حربہ کام کرگیا جس کے نتیجہ میں مسلمان بلی کا بکرا ثابت ہوا جسے آزادی کے بعد ۲۹ ہزار فسادات اور پھر دہشت گردی کے نام پر حراست، اذیت خوف و ہراس اور توہین و تذلیل کا شکار ہونا پڑا ہے جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔٭٭