سیاستمضامین

جو میری جھونپڑی گئی تو تیرا بھی محل گیا

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی

کسی بزرگ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ ’’عروج ملنے پر انسان خدا نہ بن جائے اسی لئے خدا نے زوال رکھا ہے‘‘۔ اتر کھنڈ یکساں سیول کوڈ بل آغاز پر ہی انجام تک پہنچ گیا ہے۔ اس یونیفارم سیول کوڈ میں Uniformaty اس لئے نہیں ہے کہ اس میں وہاں کے قبائیلیوں کو شامل ہی نہیں کیا گیا ہے یعنی یہ بل چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ ہندوستان میں یکساں سیول کوڈ ایک خواب کے سوا کچھ بھی نہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ چناؤ جیتنے کے لئے ہندوستان کی عوام کو بے وقوف بناتی رہے گی چاہے اس کی اس مذموم حرکت سے ملک کا شیرازہ ہی کیوں نہ بکھر جائے۔ لوک سبھا کے انتخابات کے پیش نظر یہ نام نہاد قانون عجلت میں لایا گیا ہے جس کا نہ کوئی سر ہے اور نہ پیر۔ یہ ایک اوچھی حرکت ہے جسے سیاسی فائدہ کے لئے لایا گیا ہے تاکہ اقلیت اور اکثریت میں دراڑ پیدا کی جاسکے۔ سارے عالم میں بھارتیہ جنتا پارٹی واحد پارٹی ہوگی جسے ملک کی حقیقی فکر نہیں ہے بلکہ وہ چناؤ کس طرح جیتے اسی مقصد کو ذہن میں رکھ کر کام کرتی ہے۔ بہت شور شرابے کے بعد اترکھنڈ کی ریاست نے یہ جو سیول کوڈ بنایا ہے وہ قانونی اعتبار سے زبردست مذاق کا موـضوع بنے گا۔ ملک ایک ‘ دستور ایک ‘ جھنڈا ایک ‘تو پھر ہر ریاست میں الگ الگ سیول کوڈ کیوں؟ اس قانون میں جو انتہائی شرمناک بات ہے وہ دراصل شادی کے بغیر ایک مرد اور عورت کا ایک ساتھ رہنا ہے۔مزید شرم کی بات ہے کہ ان سے ہونے والی اولاد کو جائز قرار دیا جائے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مجوزہ قانون دستور کے بنیادی حقوق کی دفعات 25, 26 اور 29 سے بھی متصاد م ہے‘ جو مذہبی و تمدنی آزادی کو فراہم کرتی ہے۔ اس طرح سے یہ قانون ملک کے Religious and Cultural Diversities کے بھی خلاف ہے جو کہ اس ملک کی نمایاں خصوصیت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مجوزہ قانون کے تحت باپ کی جائیداد میں لڑکا اور لڑکی دونوں کا حصہ برابر کردیا گیا ہے جو کہ شریعت کے قانون وراثت کے خلاف ہے۔ اسلام کا قانون وراثت جائیداد کی منصفانہ تقسیم پر مبنی ہے ، خاندان میں مالی اعتبار سے جس کی جتنی ذمہ داری ہوتی ہے جائیداد میں اس کا اتنا ہی حصہ ہوتا ہے۔ ماہرین یہ کہتے ہیں کہ اسلام عورت پر گھر چلانے کا بوجھ نہیں ڈالتا۔ یہ ساری ذمہ داریاں سراسر مرد کے کاندھوں پر لادی جاتی ہیں اسی مناسبت سے جائیداد میں ان کا حصہ ہوتا ہے۔ جائیداد کا حصہ ذمہ داریوں کی مناسبت سے بدلتا بھی رہتا ہے اور بعض صورتوں میں عورت کو مرد کے برابر یا اس سے بھی زیادہ مل جاتا ہے۔ اسلامی قانون کی یہ معنویت ان لوگوں کے سمجھ سے بالاتر ہے جو اپنی صوابدید کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس مجوزہ قانون میں دوسری شادی پر پابندی لگانا بھی صرف تشہیری غرض کے لئے ہے۔ اس لئے بھی خود حکومت کے فراہم کردہ اعداد و شمار سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا تناسب بھی تیزی سے گر رہا ہے۔ یہ ایک سچائی ہے کہ دوسری شادی کوئی شخص تفریحاً نہیں کرتا بلکہ سماجی ضرورت کی وجہ سے کرنا پڑتا ہے۔ اگر دوسری شادی پر پابندی لگادی گئی تو اس سے عورت کا ہی نقصان ہوگا کیونکہ ایسی صورت میں مرد کو مجبوراً پہلی بیوی کو طلاق دینا پڑے گا۔ درج فہرست قبائل کو اس قانون سے باہر رکھا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ یونیفارم سیول کوڈ یونیفارم نہیں ہوسکتا۔ مسلم پرسنل لا (شریعت) Applicationایکٹ 1937 کے مطابق شادی ، طلاق اور وراثت سے متعلق معلومات اسی قانون کے تحت طئے پائیں گے۔ اس قانون کا سیکشن تین ان کا طریقہ کار بھی فراہم کرتا ہے۔ اترکھنڈ کا مذکورہ قانون بہ یک وقت متعدد کاروائیوں کو جنم دے رہا ہے جس سے اندیشہ ہے کہ ہمارے پہلے سے ہی بوجھ میں لدی ہوئی عدالتو ںپر مزید بوجھ لاد دیا جائے گا۔ یہاں ایک اور سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاستی قانون کس طرح مرکزی قانون کو ختم یا منسوخ کرسکتا ہے؟ ماہرین واضح طورپر یہ کہتے ہیں کہ یونیفارم سیول کوڈ کے نام پر ایک قانون ساز اسمبلی ملک کے ووٹروں کو دھوکہ دینے کی کوشش کررہی کہ اس نے واقعی ایک بہت بڑا تیر مارا ہے۔ ماہرین اس بات پر متفق ہے کہ یہ مجوزہ قانون صرف کاروائیوں کی کثرت اور محض الجھنوں کا باعث بنے گا۔ بی جے پی نے کئی ایسے قدم اٹھائے ہیں جس سے ہندوستان جیسے عظیم ملک کو بے پناہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خاص طورپر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کا نفاذ ملک کی تاریخ میں سیاہ باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان دو بنیادوں نے ملک کی معیشت کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ قانون دراصل ووٹ بینک کی سیاست کو مضبوط کرنے کی ایک گھناؤنی چال ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت اس قدر مضبوط ہے کہ اسے ہلانے کی کوشش تو کی جاسکتی ہے لیکن اس کے استحکام کو کمزور نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کے دستور نے ہر شہری کو اس بات کی گیارنٹی دیہے کہ وہ کیسے رہے گا، کیا کھائے گا، کیا پئے گا یہ سب اس کی مرضی پر منحصر ہوگا۔ دنیا کی کوئی طاقت اس کو کسی خاص سوچ کو قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں کرسکتی۔ وہ ایک آزاد ملک کا آزاد شہری ہے، وہ قانون کے دائرہ میں کیسے عبادت کرے گا ، کون سے رسم و رواج کو اپنائے گا اس کی مرضی پر منحصر ہوگا۔ کسی خاص سوچ کو یا طرز حیات کو کسی پر مسلط کرنا ملک کو کمزور کرنے کے مترادف ہوگا۔ مذہب کی بنیاد پر کسی تمیز کی ہمارے ملک میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ہندوستان کی عوام اپنے دستور کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی عدلیہ پر غیر معمولی ایقان رکھتی ہے۔ عدلیہ اگر چاق و چوبند رہے تو یقینا صحت مند جمہوریت پنپتے رہے گی۔ ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں ہم سبھی کو بلکہ خاص طورپر مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ’’زندگی آسان نہیں ہوتی اسے آسان بنایا جاتا ہے ‘ کچھ تو صبر کرکے، کچھ برداشت کرکے اور بہت کچھ نظر انداز کرکے‘‘۔ ان تمام لوگوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے جو آندھیاں چلانے کی حماقت کرتے ہیں ۔ ان کے بارے میں شاعر تو یہی کہے گا کہ
چلا کے آندھیاں کسے گرانا چاہتا تھا تو
جو میری جھونپڑی گئی تو تیرا بھی محل گیا
۰۰۰٭٭٭۰۰۰