
حمید عادل
بلآخر ’’ہندوستان نے چاند کا تاریک حصہ روشن کردیا ۔ ‘‘جی ہاں! ہمارا ملک چاند کے قطب جنوبی پرخلائی جہاز اتارنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا … ہندوستانی سائنسدانوں نے اپنی خلائی گاڑی اتارنے کے لیے چاند کے جس حصے کا انتخاب کیا ہے وہ اس سیارے کے قطب جنوبی کا دوردراز خطہ ہے اور مستقل طور پر سائے میں رہنے کی وجہ سے اسے’’چاند کا تاریک حصہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے…اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ چاہے کوئی کتنا ہی روشن نظر آئے، اس کا بھی کوئی نہ کوئی تاریک پہلو ضرورہوتا ہے …
چندریان 3 کا خلائی مشن 14 جولائی کو آندھرا پردیش سے شروع ہوا تھا اور 40 دن کا طویل سفر چاند پر لینڈنگ کے ذریعے اختتام پذیر ہوا… اس مشن کے بڑے اہداف میں سے ایک پانی سے بننے والی برف کی تلاش ہے… اس سے متعلق ،مشکوک حیدرآبادی کہتے ہیں ’’ یہ بھی کوئی ہدف ہے، کیا ہی اچھا ہوتا ہمارے ہونہار سائنسداں چاند پر برف تلاش کرنے سے پہلے اپنے اپنے فریزر میں جھانک لیتے، انہیں برف ہی برف نظر آتی …‘‘ہم مشکوک کو سمجھاتے ہی رہ گئے کہ اگر چندریان برف کی تلاش میں کامیاب ہوجاتا ہے تو مستقبل میں چاند پر انسانوں کی رہائش میں مدد مل سکتی ہے… لیکن مشکوک ، اپنی عادت سے مجبور مختلف شکوک و شبہات کا اظہار کرنے لگے..چندریان 3 برف کی تلاش میں کس حد تک کامیاب ہوتا ہے ، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن واٹس ایپ یونیورسٹی کے پروفیسرس نے چاند پر خلائی جہاز کے اترنے میں بھی مزاح ڈھونڈلیا،چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ پیام عام ہوگیا:
’’ چندریا ن تھری سے پہلاپیام…اسرو نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ کسی کی بھی بیوی کی شکل چاند سے نہیں ملتی …‘‘
’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘ بیوی کی شکل اس وقت تک ہی چاندسے ملتی ہے جب تک وہ محبوبہ ہوتی ہے …
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
ابن انشا
چندریان3 پر615کروڑروپیوں کی لاگت آئی ہے،اسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے تیزی سے وائرل ہونے والے ایک ویڈیو میں، ایک پاکستانی شہری ہندوستان کے قمری مشن اور اس کے ملک کو درپیش مسائل کے درمیان دلچسپ مماثلتیں کھینچ رہا ہے۔ وہ یہ کہتا دکھائی دیتا ہے کہ’’ جب بھارت چاند کی سطح پر پہنچنے کے لیے رقم خرچ کر رہا تھا، پاکستانی پہلے سے ہی چاند پر رہ رہے تھے۔‘‘
ہندوستانی سائنسدانوں کی بے مثال کامیابی پر پوری دنیا سے اسرو اور ملک کو مبارکبادیاں مل رہی ہیں۔ غیر ملکی میڈیا سمیت ملکی اخبارات نے چاند مشن کی کامیابی کے حوالے سے خبریں شائع کیں۔ انگریزی اخبار’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ نے چندریان کی تصویر کے ساتھ سرخی دی’’دی مون اِز انڈیا‘‘ چندریان 3 کی کامیاب لینڈنگ پر انگریزی اخبار ’’دی ٹیلی گراف‘‘ نے صفحہ اول پر’’مودی فرسٹ، مون نیکسٹ‘‘ کی سرخی کے ساتھ خبر شائع کی ۔ دراصل اخبار نے لینڈنگ کے دوران سب سے پہلے پی ایم مودی کی تصویر دکھانے پر طنز کیا ہے۔وزیراعظم کو یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ یہ تاریخی لمحات اُن کے نہیں بلکہ اُن سائنسدانوں کے تھے جن کی برسہا برس کی انتھک کوششیں کامیاب ہونے جارہی تھیں ۔ چندر یان 3 کے چاند پر اترنے سے پہلے ٹی وی اسکرین پر وزیراعظم بار بار دکھائی دیتے ہیں لیکن جیسے ہی چندریان3 چاند پر اترتا ہے وہ چھا جاتے ہیں ، تقریر کرنے لگ جاتے ہیں ،جب کہ پہلا حق اسرو کے چیرمین ایس سومناتھ کا تھا،لیکن بیچارے صرف 23سکنڈ کی 32لفظوں پر مبنی گفتگو کرتے ہیں اور وزیراعظم مسلسل دس منٹ تک کہتے جاتے ہیں ۔ تقریر بھی ایسی کہ جس کے ابتدا میں وہ سائنسدانوں کی کامیابی کا ذکر تک نہیں کرتے، درمیان میں ذرا سا ذکر کرتے ہیںاور تقریر ختم ہونے سے پہلے ان پر کسی قدر مہربان ہوتے ہیں ۔ہر جگہ چھا جانے کی اپنی عادت سے مجبور وزیراعظم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ لوگ اپنے اپنے ٹی وی اسکرین پرانہیں نہیں چندریان3 کو چاند پر اترتا دیکھنا چاہتے ہیں …وزیراعظم کو ٹی وی کے نصف اسکرین پر خلائی گاڑی کے ساتھ دیکھ کر کچھ لوگوں نے تاڑ لیا کہ وہ بھی چاند پر اتررہے ہیں اور کچھ نے سمجھا کہ چندریان 3کے کامیاب سفر کے پیچھے ان ہی کا ہاتھ ہے …
دو دن قبل چمن بیگ سے ملاقات ہوئی، بہت خوش تھے…ہمیں دیکھتے ہی اترا کرکہنے لگے ’’ مودی جی نے توکمال کردیا،مجھے تو یہ پتا ہی نہیں تھا کہ وہ اتنے بڑے سائنسدان بھی ہیں، چندریان3 کو سیدھے چاند پر پہنچا دیا…‘‘
ہم نے انہیں ٹوکا ’’یہ تو کہو، تمہیں یہ غلط فہمی یا خوش فہمی کیسے ہوگئی کہ مودی جی سائنسدان بھی ہیں اور انہوں نے چندریان کو چاند پرپہنچا دیا؟‘‘
’’ غلط فہمی اورخوش فہمی کیسی؟‘‘چمن بری طرح سے تڑخے۔’’ تم نے مودی جی کو سمجھ کیا رکھا ہے ؟‘‘ اور انہوں نے قدرے توقف سے کہا ’’ارے بابو! مودی جی ہر فن مولا ہیں، ہرفن مولا۔‘‘
’’ انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،لیکن تم جو مودی جی کو سائنسدان سمجھ رہے ہو، وہ غلط ہے ۔‘‘
’’ ذرا سوچو!اگر وہ سائنسدان نہیں ہوتے تو چندریان3 کے چاند پراترتے وقت وہ بار بار نظرنہیں آتے !دیوانہ سمجھ رکھا ہے کیا مجھے ؟‘‘ چمن بیگ ہمارے کہے کو خاطر میں نہیں لارہے تھے۔
’’وزیراعظم کا وقتاً فوقتاً ٹی وی اسکرین پر نظر آنا ، اس بات کی ضمانت نہیں کہ انہوں نے ہی چندریان کو چاند پر بھیجا۔‘‘ہم نے وضاحت کی۔
’’ چپ رہو… افسوس! تم نے مودی جی کو آج تک نہیں سمجھا ، بڑے قلمکار بنے پھرتے ہو… وہ محض سائنسدان نہیں ہیں بلکہ عظیم ’’ماہر راڈریات‘‘ بھی ہیں … ذرایاد کرو بالا کوٹ حملہ، جب انہوں نے مکمل یقین کے ساتھ کہا تھاکہ بادلوں اور بارش کی وجہ سے ہندوستانی فائٹر طیارے پاکستان کے ریڈار سے بچ جائیں گے اور اسی لیے انہوں نے ایر سٹرائک کی اجازت دے دی تھی۔‘‘ اتنی بڑی اور اہم بات وہی کہہ سکتا ہے جو سائنس اور ٹکنالوجی سے بخوبی واقف ہو…کیا تم اور میں ایسی کوئی بات کرنے کی جرات کرسکتے ہیں ؟…بولو جواب دو…‘‘آخری جملہ ادا کرتے کرتے چمن بیگ نے ہمارا گریبان پکڑ لیا اور ہمیں بری طرح سے جھنجھوڑنے لگے…
ہم نے بڑی مشکل سے اپنا گریبان ان کی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے کہا ’’چمن! تمہیں یہ تو یاد ہے کہ وزیراعظم نے بادل ، بارش اور ریڈار کی بات کہی لیکن کیا تم اس بات کو فراموش کربیٹھے ہو کہ ان کا کتنا بڑا مذاق بنا تھا…ان کے اس انٹرویو کے بعد سوشل میڈیا پر’ ’انٹائر کلاؤڈ کور‘‘ یعنی پوری طرح بادل کے پردے میں ٹرینڈ کرنے لگا اور مرزا غالب سے مشابہ ’’مرزا کلاؤڈی ‘‘نام کا ایک شاعر اچانک نمودار ہوگیا تھا جس کا ایک شعر واٹس ایپ گروپ میں تیزی سے پھیلا تھا:
جملہ ہی پھینکتا رہا پانچ سال کی سرکار میں
سوچا تھا کلاؤڈی ہے موسم، نہیں آؤں گا ریڈار میں
کشمیری رہنما عمر عبداللہ نے توبری طرح سے مودی جی کامذاق اڑاتے ہوئے لکھا تھا: ’’پاکستانی ریڈار بادلوں میں داخل نہیں ہو سکتا۔ یہ فوجی حکمت عملی کی بہت ہی اہم معلومات ہے اور مستقبل کے ایئر سٹرائکس کی منصوبہ بندی میں یہ انتہائی اہمیت کی حامل ہوگی۔‘‘واٹس ایپ پرہی ایک فائٹر طیارے میں مودی کی تصویر کے ساتھ لکھا گیا :’ ’سنو سڑک سے چلتے ہیں، ان کے ریڈار کو لگے کا کہ بس آ رہی ہے۔‘‘’’خلیج ٹائمز‘‘ نے بھی مودی کے ریڈاروالے بیان پر بڑے سلیقے سے طنز کیا تھا ’’یہ مضحکہ خیز ہے کہ ہندوستانی وزیراعظم ہنوزچاند پر نہیں پہنچے اوریہ افسوسناک ہے کہ ہندوستانی فضائیہ کو ان سے سیکھنا پڑا کہ فضائی ریڈاروں کو چکما دینے کے لیے صرف چندبادلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘وزیراعظم کا کہا مذاق کا موضوع اس لیے بنا کیوں کہ ریڈار کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے موسموں میں بادلوں کی چادر کے پرے کی چیزوں کا پتا چلا لیتا ہے۔‘‘ہم نے چمن بیگ کا برین واش کرنے کی کوشش کی…
’’ یہ سب بکواس ہے ،دراصل کچھ لوگوں کومودی جی کی سرپرستی میں ملک کی ترقی برداشت نہیں ہورہی ہے ، اس لیے ان کے تعلق سے اوٹ پٹانگ باتیں پھیلائی جارہی ہیں …‘‘ اورپھر چمن بیگ اچانک جذباتی ہوگئے، کہنے لگے:’’ میں تو کہتا ہوں ’’ چندریان ‘‘ کا نام ’’ نریندر یان‘‘ رکھ دینا چاہیے تھا ۔‘‘
’’ نریندر یان… ؟‘‘ ہمارا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا لیکن چمن بیگ، اسی جوش کے ساتھ کہے جارہے تھے ’’ اورنہیں تو کیا ؟ مودی جی کیا کسی چاند سے کم ہیں، انہوں نے ساری دنیا میںملک کا نام روشن کردیا ہے … ورنہ ہمارے ملک کو جانتا ہی کون تھا؟‘‘ او رپھر شان بے نیازی سے کہنے لگے ’’ تم نے چندریان3 کے کامیاب سفر کے بعدانگریزی روزنامہ ’’دی ٹیلی گراف‘‘ کے صفحہ اول کی سرخی نہیں پڑھی شاید ،جس نے لکھا تھا ’’ مودی فرسٹ، مون نیکسٹ۔ ‘‘
ہم نے مسکرا کر کہا:’’ اورتم اس سرخی میں موجود طنز کو سمجھ نہیں پائے شاید، ٹیلی گراف نے وزیر اعظم مودی کو اسرو کے لائیو ٹیلی کاسٹ کے دوران دی گئی جگہ پرچبھتا ہوا ریماک کیا ہے ۔‘‘
’’ ارے چھوڑو، تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے…‘‘ اور پھر انہوں نے ہمیں دھمکاتے ہوئے کہا ’’ آئندہ میں تمہارا کالم کبھی نہیں پڑھوں گا،ارے وہ تو میںدوستی مروت میں پڑھ لیا کرتا تھا…‘‘ چمن بیگ آپے سے باہر ہوگئے …ہم نے انہیں روکنے اور سمجھانے کی بھرپورکوشش کی لیکن وہ ہاتھ چھڑا کر یہ جا وہ جا ہوگئے …
میڈیا نے جب سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بتانا شروع کیا ہے ،کسی کو سچ ہضم ہی نہیں ہورہا ہے … شاید ہم جھوٹ کی زندگی جینے کے عادی ہوچکے ہیں ۔
ایک شخص ایسا روبوٹ گھر لایا ، جو جھوٹ بولنے پر تھپڑ مارتا تھا، اگلی صبح اس کے بیٹا نے کہا ’’ پاپا آج میں اسکول نہیں جاؤں گا ، میرے پیٹ میں درد ہے۔‘‘
روبوٹ نے اسے فوری تھپڑ رسید کر دیا …
باپ نے کہا:’’ دیکھو بیٹا ! آپ نے جھوٹ بولا ، اسی لیے آپ کو سزا ملی ہے ، میں جب آپ جتنا تھا تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا تھا ۔‘‘
روبوٹ نے باپ کو بھی ایک تھپڑ جڑ دیا …
شہنشاہ ظرافت مشتاق احمد یوسفی کہہ گئے ہیں :’’ سچ بول کر ذلیل خوار ہونے کی بہ نسبت جھوٹ بول کر ذلیل و خوار ہونا بہتر ہے۔ آدمی کو کم از کم صبر تو آجاتا ہے کہ کس بات کی سزا مل رہی ہے۔ ‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰