مذہب

سرکاری اراضی پر قبضہ اور اس کی خرید و فروخت

آج کل بعض لینڈ گرابر س، سیاسی لیڈران یا غنڈہ عناصر سرکاری زمینوں پر قابض ہوجاتے ہیں ، حکومت نے ان پر زمینوں کو عوامی ضرورت کے لئے رکھا ہوتا ہے ، پھر یہ قابضین رشوت دے کر سرکاری عہدے داروں سے لے آوٹ بھی منظور کرالیتے ہیں ،

سوال:- آج کل بعض لینڈ گرابر س، سیاسی لیڈران یا غنڈہ عناصر سرکاری زمینوں پر قابض ہوجاتے ہیں ، حکومت نے ان پر زمینوں کو عوامی ضرورت کے لئے رکھا ہوتا ہے ، پھر یہ قابضین رشوت دے کر سرکاری عہدے داروں سے لے آوٹ بھی منظور کرالیتے ہیں ،

کیا ایسی زمین کو خرید کرنا اور آگے فروخت کرنا جائز ہے۔ (محمد نصیر عالم سبیلی ، کوتہ پیٹ حیدرآباد )

جواب:- زمین کسی فرد کی غصب کی جائے یا حکومت کی، دونوں ہی غصب میں شامل ہیں ، اس لئے سرکاری اراضی پر قبضہ کرلینا جائز نہیں ،

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کسی انسان کا مال حلال نہیں ہے ، سوائے اس کے کہ وہ اپنی خوشی سے دیدے : ’’ ألا لا یحل مال امری إلا لطیب نفسہ‘‘ ( مرقاۃ المفاتیح : ۶؍۱۳۵) سرکاری اُفتادہ اراضی دو طرح کی ہوتی ہیں ، ایک وہ جو کسی متعین عوامی مفاد کے لئے رکھی جاتی ہیں،

جیسے: کھیل کا میدان، جانوروں کی چراگاہ ، عوامی پارک وغیرہ، ان زمینوں کو لے آوٹ کرانے کے باوجود جانتے بوجھتے خرید کرنا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ یہ بیچنے والے کی ملکیت نہیں ہے، اگر پیسے دے کر خرید لے تب بھی شرعاً اس پر اس کی ملکیت ثابت نہیں ہوگی :

’’ منھا أن یکون مملوکاً ، لان البیع تملیک، فلا ینعقد فیما لیس بمملوک‘‘ (بدائع الصنائع : ۴؍۳۳۹)

ایسی زمین کو بیچنا اور صورتِ حال سے واقف ہونے کے باوجود اس کو خریدناگناہ ہے اور اس کا گناہ بھی بہت زیادہ ہے؛ کیوںکہ یہ ایک شخص کی ملکیت کو غصب کرنا نہیں ہے ؛ بلکہ بہت سے لوگوں کی ملکیت کو غصب کرنا ہے ۔

بعض سرکاری زمین افتادہ ہوتی ہیں، جو حکومت کی ملکیت تو ہوتی ہے ؛ لیکن کسی متعین مقصد کے لئے نہیں ہوتی، ایسی ہزاروں ایکڑ زمینیں ہر ریاست میں موجود ہیں ، ان پر بھی گورنمنٹ کی اجازت کے بغیر قابض ہوجانا جائز نہیں ہے اور سخت گناہ ہے ،

نیز دوسرے شخص کے لئے زمین کی نوعیت سے واقف ہونے کے باوجود اس کو خریدنا بھی جائز نہیں ہے : ’’ إن کان المغصوب أرضاً وھو قائم بید الغاصب ، فلا یجوز للآخر أن یشتریہ منہ ‘‘ (فقہ البیوع : ۲؍۱۰۰۸) ؛

البتہ اگر ایسی زمین کا کوئی شخص لے آوٹ منظور کرالے اور اس بنیاد پر اس کو فروخت کردے تو اس کو خرید کرنے کی گنجائش ہوگی؛

کیوں کہ لے آوٹ منظور کرانا حکومت کی طرف سے ایک درجہ کی اجازت ہے : الغاصب إذا باع المغصوب من رجل ثم باعہ المشتری من الآخر حتی تداولتہ الأیدی ثم إن المالک أجاز عقداً من العقود جاز ذلک العقد ۔ (الفتاویٰ الہندیہ : ۳؍۱۱۱)