یوروپ ‘جنگ کے شعلے بجھائے، یوکرین کے لیے نہیں، اپنے لیے

خلف احمد الحبتور
گزشتہ منگل کو روسی پارلیمان سے اپنے خطاب میں صدر ولادی میر پوتن نے مغرب پر یوکرین کو ’مقامی تنازع سے عالمی محاذ آرائی‘ میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا۔ اتفاق دیکھیے کہ ایسا اس وقت ہوا جب امریکی صدر جو بائیڈن وارسا میں پولینڈ کے صدر کے ساتھ مذاکرات سے پہلے اچانک یوکرین کے دورے پر پہنچ گئے۔ پوتن کے بیان کے جواب میں بائیڈن کیف کو مزید تعاون فراہم کرنے کا عہد کرتے ہیں۔ اسی دوران یوکرین کے حامی یوروپی ممالک امریکہ کی سیاسی، اخلاقی اور لاجسٹک مدد کے علاوہ یوکرین کو سامان حرب اور جدید فوجی ہتھیاروں کی فراہمی میں اضافہ کرکے کسی سمجھوتے کے بغیر اپنے غیر متزلزل عزم پر قائم ہیں۔
جنگ کا ایک سال مکمل ہونے پر مغربی ممالک کو منطقی اور حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے بحران سے نمٹنا چاہیے۔ انہیں جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے کی بجائے امن کے لیے کام کرنا چاہیے جس کے اثرات میدان جنگ سے کہیں زیادہ خود یوروپی ممالک اور وہاں کی برادریوں تک پھیل رہے ہیں جس سے شہریوں کے تحفظ اور سکیورٹی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے جرمنی کے ’کولون انسٹی ٹیوٹ فار اکنامک ریسرچ‘ کی جانب سے شائع کی گئی، ایک رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے جرمنی کی معیشت کو ہونے والے نقصانات 2023 کے آخر تک 600 ارب یورو تک پہنچ جائیں گے۔ جرمنی کے جی ڈی پی کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق ملک میں فی کس آمدنی میں دو ہزار یورو کی کمی کا امکان ہے جب کہ توانائی کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ اس کے علاوہ ہے۔ اگر جنگ کی وجہ سے یوروپ کی سب سے مضبوط معیشت کو اتنی زیادہ قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے تو دوسرے یوروپی ممالک کے عوام کا کیا بنے گا؟
لہٰذا میں یوروپی یونین کے ممالک اور برطانیہ کے رہنماو¿ں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اپنی پالیسیز کا رخ موڑ دیں، کیوں کہ اگر وہ اسی راہ پر گامزن رہتے ہیں تو اس سے ان کے اپنے لوگوں اور معیشتوں کے لیے ہی شدید خطرات اور تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ غیر ملکی ایجنڈے پر لڑی جانے والی جنگ کو مزید بھڑکانے میں مدد نہ کریں جس سے یوکرین کے لوگوں کے ساتھ ساتھ خود اپنے عوام اور ریاستوں کے لیے خرابیاں پیدا ہوں گی۔ دور اندیشی کا تقاضا ہے کہ امور کا اندازہ لگائیں اور روس یوکرین بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے ایک بین الاقوامی میکنزم کو نافذ کیا جائے تاکہ کم سے کم ممکنہ نقصان ہو جس سے بے گناہ یوکرینی عوام کو ان مصائب سے بچایا جا سکے جن کا وہ اب سامنا کر رہے ہیں۔ ایسا متحارب فریقوں کے خدشات سننے اور سویڈن اور فن لینڈ کو ناٹو میں شامل کرنے جیسے اشتعال انگیز اقدامات سے گریز کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ کہے بغیر کہ ایسے اشتعال انگیز اقدامات روسی غصے کو ہوا دیں گے جو اپنی سکیورٹی اور خودمختاری کے حق اور مفادات کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے اور اپنے دفاع کے لیے اسٹریٹجک، روایتی اور جوہری ہتھیاروں سمیت تمام دستیاب ذرائع کو استعمال کرنے پر غور کرے گا۔ صورت حال، جیسا کہ لگتا ہے، کسی بھی سمت جا سکتی ہے اور اگر اس کشیدگی میں اضافہ جاری رہا تو یہ عالمی جوہری جنگ کا باعث بنے گا۔ لہٰذا میں یوروپی یونین کے ممالک اور برطانیہ کے رہنماو¿ں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ خود پر مسلط اور دنیا میں ہونے والی جنگوں کے منفی نقصانات سے سبق سیکھیں۔ جنگ سے فرار ہونے والے یوکرین کے باشندوں کی تعداد 80 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ یوروپ کے لوگ گھبراہٹ میں جی رہے ہیں جن کو بے روزگاری کی شرح میں خطرناک حد تک اضافے اور ایندھن، بجلی اور خوراک سمیت بنیادی ضروریات کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کا سامنا ہے۔ یوروپی عوام کچھ حد تک خوش قسمت رہے کیوں کہ اس سال یوروپ میں سردیوں کا موسم معمول کے مطابق سرد نہیں رہا ہے۔ اس طرح ان کے گھروں اور دفتروں میں گرم ہوا کے نظام کی ضروریات کم ہو گئیں جس سے انہیں توانائی کے ذرائع پر کم رقم خرچ کرنا پڑی۔ یوروپ میں ایندھن کی قیمتیں گزشتہ سال روس کی ان ممالک کو تیل اور گیس کی فراہمی میں کمی کی وجہ سے غیر معمولی سطح تک پہنچ گئی تھیں۔ کیا یوروپی رہنماو¿ں کو یہ احساس نہیں ہے کہ ان کی حتمی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے لوگوں کے لیے آسان اور محفوظ زندگی کو یقینی بنائیں اور ان کی سلامتی کو خطرے میں نہ ڈالیں؟ وہ اپنے انتخابی حلقوں میں اس کا کیا جواز پیش کریں گے کہ ان کے لوگوں کی قسمت روس یوکرین کے محاذ پر ہونے والی پیشرفت پر منحصر ہے؟ بدترین صورت حال میں کیا یوروپی ریاستیں دنیا بھر میں سنگین نتائج کا باعث بننے والی تیسری تباہ کن عالمی جنگ میں شامل ہونے کے لیے تیار ہیں؟ جب یوکرین جنگ اپنے دوسرے سال میں داخل ہو رہی ہے تو ہمارا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ یہ تنازع مزید بڑھ جائے گا اور ناقابل بیان ردعمل کے ساتھ قابو سے باہر ہوجائے گا اور اس کے بعد ہونے والے نقصانات پر رونے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ یہ یوروپی یونین اور برطانوی رہنماو¿ں کے لیے ایک کھلا خط ہے۔ اپنی ریاستوں اور عوام کے مفادات کے لیے کام کریں۔ ان کی تکلیف کا احساس کریں اور اپنی رقوم اور اپنے لوگوں کے اثاثوں سے غیر ملکی ایجنڈے پر مبنی اس جنگ کی مالی اعانت بند کریں۔ آپ کی ترجیح اس جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ہتھیاروں کی فراہمی اور ایک فریق کو دوسرے پر فوقیت دینے کے بجائے روسیوں اور یوکرین کے لوگوں کے مابین مفاہمت اور معاہدے کے حصول کے لیے اپنی پوری کوشش کریں۔ جنگ کی آگ کو ہوا دینے کے نتائج سے بچیں کیوں کہ اس سے آپ کو ہی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے اور آپ تمام نقصانات کے ساتھ آپ ہی سب کچھ کھو دیں گے۔