اے آئی کا کمال، پاکستان میں 17 سال بعد لاپتہ لڑکی اپنے والدین سے دوبارہ مل گئی
پاکستان میں ایک حیران کن اور جذباتی واقعہ سامنے آیا ہے، جہاں مصنوعی ذہانت (AI) کی مدد سے ایک لڑکی 17 سال بعد اپنے والدین سے دوبارہ جا ملی۔ یہ وہ لڑکی تھی جو 2008 میں صرف 10 سال کی عمر میں اسلام آباد سے لاپتہ ہوگئی تھی۔
پاکستان میں ایک حیران کن اور جذباتی واقعہ سامنے آیا ہے، جہاں مصنوعی ذہانت (AI) کی مدد سے ایک لڑکی 17 سال بعد اپنے والدین سے دوبارہ جا ملی۔ یہ وہ لڑکی تھی جو 2008 میں صرف 10 سال کی عمر میں اسلام آباد سے لاپتہ ہوگئی تھی۔
Table of Contents
10 سال کی عمر میں لاپتہ… 17 سال تک والدین کی تلاش جاری
اسلام آباد کی رہائشی کرن 2008 میں گھر کے قریب سے آئس کریم خریدنے نکلی تھی، مگر راستہ بھٹک گئی اور واپس نہ آسکی۔ ایک خاتون نے روتی ہوئی بچی کو قریب ہی موجود ایڈھی سینٹر پہنچایا، کیونکہ بچی اپنا گھر یا پتہ یاد نہ رکھ سکی تھی۔
چند دن بعد کرن کو کراچی کے ایڈھی فاؤنڈیشن کے شیلٹر ہوم منتقل کردیا گیا، جہاں اس نے اپنا بچپن اور نوجوانی گزاری۔
مصنوعی ذہانت (AI) نے ناممکن کو ممکن بنا دیا
سالوں تک کی جانے والی کوششوں کے باوجود کرن کے گھر والوں کا پتا نہ چل سکا۔
تاہم اس سال ایڈھی فاؤنڈیشن نے پنجاب سیف سٹی پروجیکٹ کے سائبر سیکیورٹی ایکسپرٹ نبیل احمد سے مدد مانگی۔
انہوں نے:
- کرن کی بچپن کی تصاویر
- موجودہ تصاویر
- اسلام آباد پولیس کی پرانی رپورٹس
کے ذریعے فیشل ریکاگنیشن AI استعمال کیا۔
نتیجہ حیران کن تھا — AI نے کرن کا چہرہ 2008 کی رپورٹ سے میچ کر دیا، اور اس طرح اس کے خاندان تک رسائی ممکن ہوئی۔
والد کی آنکھوں پر یقین نہ آیا
خبر ملتے ہی کرن کے والد عبدالمجید، جو پیشے سے درزی ہیں، فوراً کراچی پہنچے۔
سالوں تک تلاش اور مایوسی کے بعد جب وہ اپنی بیٹی سے ملے تو جذباتی منظر دیکھ کر سب کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
کرن نے کہا کہ وہ اپنے خاندان سے مل کر خوش ہے، مگر ایڈھی شیلٹر چھوڑتے ہوئے دل ٹوٹ رہا تھا کیونکہ بلقیس ایڈھی نے اس کی والدہ کی طرح پرورش کی۔
AI کی مدد سے 5واں کامیاب ملاپ
ایڈھی فاؤنڈیشن کے مطابق، کرن پانچویں لڑکی ہے جو AI، پولیس ٹیکنالوجی اور سیف سٹی پروجیکٹس کے تعاون سے اپنے خاندان سے دوبارہ ملی ہے۔
ٹیکنالوجی کے اس مثبت استعمال نے سینکڑوں خاندانوں میں امید جگا دی ہے۔
مصنوعی ذہانت نے ایک ایسی بیٹی کو اس کے والدین سے دوبارہ ملا دیا جو 17 سال تک گمشدہ رہی۔
یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ جدید ٹیکنالوجی انسانی زندگی میں کیسے معجزے برپا کر سکتی ہے۔