’’آنکھ کے بدلے آنکھ‘‘: طالبان نے قتل کے 2 مجرموں کو سرعام موت کی نیند سلادیا
موت کی سزا کا مشاہدہ کرنے کے لئے اسٹیڈیم میں ہزاروں افراد جمع تھے۔ مقتولین کے اہل خانہ بھی وہاں موجود تھے اور ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ مجرمین کو آخری لمحات میں مہلت دینا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے دونوں کے لئے بھی انکار کر دیا۔
غزنی: افغانستان میں طالبان حکام نے جمعرات کو مشرقی افغانستان کے ایک فٹبال اسٹیڈیم میں قتل کے مجرم دو افراد کو سرعام موت کی سزا دے دی۔ جائے وقوعہ پر موجود اے ایف پی کے صحافی نے اس بات کی توثیق کی ہے۔
غزنی شہر میں سپریم کورٹ کے اہلکار عتیق اللہ درویش کی جانب سے طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کے دستخط شدہ موت کے پروانے کو بلند آواز میں پڑھ کر سنانے کے بعد دونوں افراد (مجرمین) کو ان کی پشت پر متعدد گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
درویش نے کہا کہ ان دو افراد کو قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ ملک کی عدالتوں میں دو سال مقدمے کی سماعت کے بعد موت کے حکم نامے پر دستخط کئے گئے ہیں۔
موت کی سزا کا مشاہدہ کرنے کے لئے اسٹیڈیم میں ہزاروں افراد جمع تھے۔ مقتولین کے اہل خانہ بھی وہاں موجود تھے اور ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ مجرمین کو آخری لمحات میں مہلت دینا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے دونوں کے لئے بھی انکار کر دیا۔
واضح رہے کہ کابل میں طالبان انتظامیہ کو 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے دنیا کی کسی دوسری حکومت نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔
اخوندزادہ نے 2022 میں ججوں کو اسلامی قانون کے تمام پہلوؤں کو مکمل طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا تھا جس میں ’’آنکھ کے بدلے آنکھ‘‘ کی سزائیں شامل ہیں جو قصاص کے نام سے مشہور ہیں۔
اسلامی قانون یا شریعت، دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے ایک ضابطہ حیات کے طور پر کام کرتی ہے جو شائستگی، مالیات اور جرائم جیسے مسائل پر انہیں راہ دکھاتی ہے۔ تاہم، مقامی رسم و رواج، ثقافت اور مذہبی مکاتب فکر کے مطابق تشریحات مختلف ہوتی ہیں۔
بتادیں کہ1996 سے 2001 تک طالبان کے پہلے دور حکومت میں بھی مجرمین کو سرعام موت کی سزا دینا عام تھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ آج دو مجرمین کو دی گئی سزائے موت طالبان حکام کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے سزائے موت کی تیسری اور چوتھی سزا ہے۔ پہلے دو کو بھی قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ یہاں چوری، زنا اور شراب نوشی سمیت دیگر جرائم کے لیے باقاعدہ سرعام کوڑے مارے جاتے ہیں۔
گزشتہ مرتبہ جون 2023 میں سرعام سزائے موت دی گئی تھی جبکہ ایک سزا یافتہ قاتل کو صوبہ لغمان کی ایک مسجد کے میدان میں تقریباً 2000 افراد کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔