
محمد مصطفی علی سروری
31؍ مئی 2023چہارشنبہ کا دن تھا۔ سیموئل پرساد اپنے گھر میں تنہا تھے۔ ان کی نوکرانی بھی اس دن چھٹی پر تھی۔ ویسے خود سیموئل پرساد بھی چھٹی پر تھے۔ مطلب یہ کہ وہ ایک سرکاری ملازم تھے۔ ریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔ تین بچے ہیں۔ دو لڑکے اور ایک لڑکی لیکن تینوں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے امریکہ گئے اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ آئی آر ایس کی سرویس سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیموئل پرساد اکیلے اپنی بیوی کے ساتھ رہتے تھے۔ لیکن دس برس قبل ان کی بیوی کا بھی انتقال ہوگیا تھا اور اب وہ بالکل اکیلے رہ رہے تھے۔ عمر کے ساتھ کچھ بیماریاں بھی تھیں۔ بچوں سے تعلقات اب فون کی حد تک تھے۔ کوئی بھی بچے انڈیا آنے کے لیے تیار نہیں تھے اور وہ انڈیا چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ ایک بہن تھی جو حیدرآباد میں ہی رہتی تھی۔ کبھی کبھار وہ آجاتی تو سیموئل اس کے ساتھ بات کر کے خوش ہو لیتے تھے۔
خیر سے قارئین شہر حیدرآباد کے علاقے رام نگر، مشیر آباد کے مکین سیموئل پرساد نے یہ سونچ کر کہ گھر میں کام والی بھی چھٹی پر گئی ہے تو باہر سے اڈلی منگوالی تاکہ اپنا ناشتہ کرسکیں۔ 31؍ مئی 2023 کو انہوں نے ناشتہ میں اڈلی کھائی اور اس کے بعد ان کے ساتھ کیا ہوا کسی کو نہیں معلوم۔ سیموئل پرساد کی بہن ان کو فون کرتی رہی لیکن اس کو کوئی جواب نہیں ملا۔ ایک دن گذر گیا۔ دوسرا دن گذر گیا۔ سیموئل پرساد کی بہن کی پریشانی بڑھتی گئی اور وہ اگلے دن اپنے بھائی کے گھر واقع مشیر آبادی گئی تو بے حدپریشان ہوگئی کیونکہ گھر میں کوئی نہیں تھا اور سیموئل پرساد بے ہوش پڑا ہوا تھا۔ فوری ایمبولنس منگوائی اور بھائی کو دواخانہ منتقل کیا۔ ڈاکٹرز نے بتلایا کہ سیموئل پرساد کوما میں ہیں۔ بحر حال ڈاکٹرز علاج کرتے رہے اور چار دن بعد سیموئل پرساد کو ہوش آگیا اور دواخانے والوں نے ڈسچارج کردیا تو وہ گھر واپس آگئے۔ لیکن گھر آنے کے بعد سیموئل کو پتہ چلا کہ انہوں نے گھر میں جو کچھ نقد رقم رکھی تھی وہ غائب ہے۔ اتنا ہی نہیں ان کی زمینات کے کاغذات بھی گم ہوگئے تھے۔
14؍جون2023 کو سیموئل پرساد مشیر آباد پولیس اسٹیشن سے رجوع ہوکر باضابطہ طور پر شکایت درج کرواتے ہیں کہ ان کے گھر سے نقد رقم کے علاوہ زمینات کے کاغذات بھی چوری ہوگئے ہیں۔ پولیس نے شکایت درج کرنے کے بعد باضابطہ تحقیقات کا آغاز کردیا۔ سیموئل پرساد سے تفصیلات پوچھنے پر پولیس کو پتہ چلا کہ انہیں جو یاد آتا ہے کہ اس کے مطابق 31؍ مئی 2023 کو وہ صبح ناشتہ کر رہے تھے اس وقت ان کا ایک شناسا سریندر ان کے ساتھ تھا۔
سریندر ایک ریئل اسٹیٹ کا تاجر ہے۔ ای ٹی وی بھارت کی رپورٹ کے مطابق سیموئل پرساد سال 2020 ء سے اس ریئل اسٹیٹ تاجر کے ساتھ بزنس کر رہے تھے۔ گذشتہ مہینے بھی سریندر کے ساتھ سیموئل پرساد نے وشاکھا پٹنم کا سفر کیا اور وہاں پر زمینات کے کچھ معاملات طئے کیے۔ واپسی میں سیموئل پرساد کے پاس سے 60 ہزار کی نقدی غائب ہوگئی تھی اور اس تعلق سے سریندر نے بھی اپنی لاعلمی کا اظہار کیا اور 31؍ مئی کو صبح کے وقت جب سیموئل پرساد ناشتہ کر رہے تھے تو سریندر بھی وہاں موجود تھا۔شک اور شکایت کی بنیاد پر پولیس نے سریندر کو 17؍ جون کو گرفتار کرلیا۔
قارئین کرام بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ شروع ہوتی ہے۔ آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے سریندر نے پولیس تحقیقات میں انکشاف کیا کہ اس کا دوست پولیس میں سب انسپکٹر ہے۔ کرشنا نام کا یہ ایس آئی اخبار تلنگانہ ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق سائبرآباد پولیس کمشنریٹ کے تحت ایک پولیس اسٹیشن سے وابستہ ہے۔ اور سریندر نے اسی ایس آئی کے ساتھ مل کر ساز ش رچی اور سیموئل پرساد کے مال و جائیداد کو ہڑپنے کا منصوبہ بنایا۔ سریندر کو اس بات کا پتہ تھا کہ سیموئل پرساد کے بچے امریکہ میں رہتے ہیں اور اس کے پاس بہت ساری زمینات ہیں۔ بیوی کے مرنے کے بعد سیموئل چونکہ اکیلے رہتا تھا اس بات کا بھی سریندر کو پتہ تھا۔ 31؍ مئی کو جب سیموئل ناشتہ میں اڈلی کھا رہا تھا تو س کے سامنے سریندر بھی بیٹھا ہوا تھا۔ ناشتے کے دوران سریندر نے سیموئل کو زمین کے کاغذات فوری طور پر لانے کو کہا تو سیموئل نے کھانا ادھورا چھوڑ کر دوسرے کمرے کا رخ کیا اور وہاں الماری سے زمین کے کاغذات نکالنے چلا گیا جیسے سیموئل اندر گیا سریندر نے سیموئل کے اڈلیوں میں بے ہوشی کی دوا ملادی۔ اب سیموئل نے وہ اڈلیاں کھائی تو ایسا بے ہوش ہوا کہ کو ما میں چلا گیا۔ تب سریندر نے سیموئل کے گھر سے زمین کے کاغذات، سونا اور نقد رقم لے کر فرار ہوگیا اور جاتے جاتے گھر کو باہر سے تالہ ڈال دیا۔
سیموئل کی بہن اپنے بھائی کو فون کرتی رہی لیکن جواب نہ آنے پر وہ پریشان ہوکر بھائی کے گھر پہنچ گئی۔ گھر کا تالہ توڑ کر دیکھا تو سیموئل بے ہوش پڑا ہوا تھا۔
قارئین اس سارے معاملے میں سائبر آباد کے ایک پولیس سب انسپکٹر کا مشکوک رول سامنے آگیا۔ پولیس کا یہ عہدیدار شہر سے باہر مضافاتی علاقے میں 3 ایکڑ زمین خرید رہا تھا جو کہ سیموئل کی ملکیت میں تھی۔ تب اس کو اندازہ ہوگیا کہ سیموئل کے ہاں بہت ساری دولت ہے۔ تب اس نے ریئل اسٹیٹ کے تاجر سریندر کے ذریعہ سیموئل پرساد کو دھوکہ دینے کا منصوبہ بنایا۔
اخبار تلنگانہ ٹوڈے کی 29؍ جون کی رپورٹ کے مطابق محکمہ پولیس نے سائبر آباد کے سب انسپکٹر پولیس کرشنا کو خدمات سے معطل کرتے ہوئے تحقیقات کرنے کا حکم دیا۔ دوسری طرف اخبار نے اطلاع دی کہ مذکورہ ایس آئی ابھی تک مفرور ہے۔
قارئین کرام اس ساری خبر کا دلچسپ پہلو تو یہی تھا کہ جب پولیس اور مجرمین آپس میں ساز باز کرلیتے ہیں تو عوام کی پرسکون زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔
یوں تو دھوکہ، چوری اور ڈکیتی کی ہر وارادات پریشان کن ہوتی ہے۔ لیکن غیر قانونی سرگرمیوں میں جب خود قانون کے رکھوالے بھی شامل ہوجاتے ہیں تو عوام اپنی سلامتی، اپنے آپ کو بے بس اور لاچار محسوس کرتے ہیں۔ اب وہ کس سے شکایت کریں اور کس سے انصاف کی توقع رکھیں۔ اور اس سارے واقعے میں ان بچوں کے لیے بھی سبق ہے جو اپنے والدین کو اپنے وطن میں تنہا چھوڑ کر بیرون ملک اپنا کیریئر اور اپنی زندگی بنانے کے لیے چلے جاتے ہیں اور ان کا اپنے ہی والدین سے تعلق فون تک محدود ہوجاتا ہے۔
جس طرح سے ایک قانون کا رکھوالا قانون شکنی کرتا ہے تو سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتا ہے ایسی ہی ایمانداری کا درس دینے والے استاد پر بے ایمانی کا جب الزام لگتا ہے ، اس وقت بھی سبھی لوگ چونک پڑتے ہیں۔ جی ہاں قارئین خبر امریکہ کے مشہور زمانہ ہارورڈ یونیورسٹی کی ایک خاتون پروفیسر کے متعلق ہے۔ برطانوی اخبار Theguardian.com کی 25؍ جون 2023 کی رپورٹ کے مطابق فرانسیا گینو نامی 42 سالہ خاتون پروفیسر اٹلی کی نژاد امریکی ہیں اور ہارورڈ یونیورسٹی کے بزنس اسکول میں بچوں کو پڑھانے کا کام کرتی ہیں۔
پروفیسر فرانسیا پر گذشتہ ہفتوں کے دوران نہایت سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان کے متعلق کہا گیا کہ انہوں نے اپنی Behavioral Science Studies کے دوران مواد کو توڑ مروڑ کر پیش کیا۔
گارڈین اخبار کی رپورٹ کے مطابق کرانیکل آف ہائر ایجوکیشن نے ہارورڈ بزنس اسکول کے ایک پروفیسر میاکس بزرمین کے حوالے سے بتلایا کہ انہوں نے پروفیسر فرانسیا کے ساتھ سال 2012 میں جو تحقیقی مقالہ پیش کیا تھا اس کے متعلق ہارورڈ نے انہیں بتلایا کہ فرانسیا نے جس تحقیق کی نگرانی کی وہ تحقیق نتائج کو توڑ مروڑ کر پیش کی گئی ہے۔
قارئین ذرا اس تحقیق کے متعلق بھی جان لیجئے جس کو بڑھا چڑھاکر یا تو ڑ مروڑ کر پیش کرنے کا الزام ہے۔ تحقیق میں ٹیکس اور انشورنس کے کاغذات کی تفصیلات درج کرنے کے حوالے عوام کی رائے جاننے کی کوشش کی گئی اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ ٹیکس اور انشورنس کے ایسے فارمس جس میں فارم میں تفصیلات درج کرنے سے پہلے درخواست گذار سب سے پہلے اس بات کا اقرار کرتا ہیکہ اس کی جانب سے فراہم کی جانے والی معلومات بالکلیہ درست اور صحیح ہیں۔
فرانسیا نے اس تحقیق میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جن فارمس (Forms) میں تفصیلات درج کرنے سے پہلے ہی صحیح معلومات فراہم کرنے کا اقرار نامہ ہوتا ہے وہ عوام کو درست معلومات پوری ایمانداری سے درج کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔
اس کے بعد فرانسیا کی جانب سے تحریر کردہ چار مزید مقالوں کے متعلق تفصیلات سامنے آگئیں کہ پروفیسر فرانسیا نے مزید چار مقالوں میں بھی لکھنے کے دوران فراڈ کیا ہے۔
پروفیسر فرانسیا کی اس دھوکہ دہی کے سامنے آنے کے بعد گارڈین اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس خاتون پروفیسر کو تحقیقات مکمل ہونے تک انتظامی چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔
قارئین بہت سارے لوگ اس خبر کو پڑھنے کے بعد عجیب طرح کے مخمصہ کا شکار ہوگئے تھے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سچائی کا درس دینے والی پروفیسر خود جھوٹ کے الزامات کا سامنا کر رہی ہے۔ جس طرح سے زندگی کے ہر شعبہ حیات میں اچھے اور برے دونوں طرح کے لوگ رہتے ہیں ویسے ہی پیشہ تدریس میں بھی صورتحال ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ سچائی کا درس دینے والا ہر استاد کبھی جھوٹ نہ بولے۔
قارئین کرام ذرا مسلمانوں کی صورتحال پر بھی غور کرلیں۔ وہ مذہب اسلام جس نے شراب نوشی سے منع کیا ہے اس کے ماننے والوں میں شراب پینے کی عادات سامنے آرہی ہیں۔ وہ مذہب اسلام جس میں جھوٹ بولنے کی بار بار مخالفت آئی ہے اس کے ماننے والے جھوٹ بھی بولتے ہیں اور غیروں میں مسلمانوں کے متعلق یہی تعارف عام ہو رہا ہے۔
لیکن ایسے بھی مسلمان ہیں جن کی زندگیاں ساری شریعت محمدیؐ کی پیروکاری میں گذر رہی ہیں اور یقینا اللہ رب العزت نے ایسے مسلمانوں کے لیے کامیابی کی بشارت دی ہے کہ روزِ محشر وہ کامیاب و کامران ہوں گے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو بھی صرف نام اور لباس سے ہی نہیں بلکہ اپنے عمل سے، اپنے معاملات بلکہ اپنے پوری زندگی شریعت مطہرہ کی روشنی میں گذارنے والا بنادے تاکہ لوگ جب مسلمان سے معاملہ کریں تو بے چین نہیں بلکہ اطمینان سے رہیں۔ (آمین یارب العالمین)
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)۔ sarwari829@yahoo.com