قومی

وقف بورڈ کی خودمختاری ختم ہونے نہیں دی جائے گی: آل انڈیا مجلس مشاورت

آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ) نے وقف ایکٹ میں مجوزہ ترمیمات کو غیر ضروری اور مضر قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ یہ اپیل آج یہاں جاری ایک ریلیز میں کی گئی ہے۔

نئی دہلی: آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت (رجسٹرڈ) نے وقف ایکٹ میں مجوزہ ترمیمات کو غیر ضروری اور مضر قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ یہ اپیل آج یہاں جاری ایک ریلیز میں کی گئی ہے۔

متعلقہ خبریں
شاہی عیدگاہ ٹرسٹ اور وقف بورڈ کی درخواستوں کی یکسوئی
وقف ترمیمی بل، مرکزی حکومت کے ارادے نیک نہیں ہیں: جعفر پاشاہ
وقف ترمیمی بل کے خلاف مجسمہ امبیڈکر ٹینک بنڈ پر کل جماعتی دھرنا، مولانا خیر الدین صوفی، عظمیٰ شاکر، عنایت علی باقری اور آصف عمری کا خطاب
وقف ترمیمی بل چور دروازے سے اوقافی جائیدادوں کو غصب کرنے کی سازش: مشتاق ملک
وقف بورڈ کا ریکارڈ روم مہر بند کرنے کا معاملہ، ہائیکورٹ جج سے تحقیقات کا مطالبہ

آج یہاں مشاورت کے جنرل سیکریٹری معصوم مرادآبادی نے اپنے بیان میں کہا کہ حکومت کی طرف سے وقف بورڈ کے اختیارات کو محدود کرنے کا قدم وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضوں کا دروازہ کھول دے گا۔

انھوں نے کہا کہ 2013 میں پاس شدہ وقف ایکٹ میں ترمیم سے پہلے تمام اسٹیک ہولڈرس کی رائے لی گئی تھی اور اسے ہر اعتبار سے مضبوط اور موثر بنایا گیا تھا تاکہ اوقاف کی جائیدادوں کو زیادہ محفوظ اور کارگر بنایا جاسکے۔

تاہم اب مرکزی کابینہ نے 2013 کے ایکٹ میں جو چالیس سے زیادہ ترمیمات پیش کی ہیں وہ اوقاف کے تحفظ کے نقطہ نظر سے سخت نقصان دہ ہیں  ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک بھر میں پھیلی ہوئی ہزاروں کروڑ کی وقف جائیدادوں حکومت اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی ہے۔

اسی لئے وقف بورڈ کے اختیارات محدود تر کئے جارہے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ ان مسجدوں اور مزارات کے تحفظ پر پڑے گا جن پر فرقہ پرستوں کی بری نظر ہے اور وہ انہیں ہڑپنا چاہتی ہیں۔

قبل ازیں موصولہ اطلاع کے مطابق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے کے حکومت کے فیصلہ کو ناقابل قبول قرار دیا اور کہا ہے کہ حکومت کسی نہ کسی بہانہ سے مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مدخلت کررہی ہے جس سے ملک کے سیکولر جمہوری نظام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ یہ بات آج یہاں جاری ایک ریلیز میں کہی گئی ہے۔

مشاورت کے جنرل سکریٹری شیخ منظور احمد نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت وقف بورڈوں کے اختیارات کو محدود کرنا چاہتی ہے اور کسی نہ کسی طریقے سے ان جائیدادوں پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو ہمارے آباء و اجداد نے مذہبی اور فلاحی کاموں کے لیے وقف کیا ہے۔

حکومت کا کام اس کو ریگولیٹ کرنے کا ہے لیکن وہ ان کو ہڑپنا چاہتی ہے اور وقف املاک پر قابض غاصبوں کے لئے قانون میں دروازے کھولنا چاہتی ہے۔

شیخ منظور احمد نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ وقف ایکٹ میں ترامیم کرنے سے پہلے کسی بھی مسلم تنظیم، دانشوروں، ماہرین قانون اور اسلامی اسکالر سے کوئی بھی مشورہ نہیں کیا گیا۔ اس سے حکومت کی نیت صاف نظر آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وقت کا تقاضہ ہے کہ وقف بورڈوں کی حیثیت کو برقرار رکھا جائے اور وقف املاک کا استعمال شریعت کے حساب سے ہونا چاہیے۔اس وقت 8لاکھ 70ہزار سے زیادہ املاک اور جائیدادیں وقف بورڈوں کی تحویل میں ہیں اور اس کا استعمال رفاہی کاموں اور فلاح و بہبود کے لیے کیا جائے نہ کہ کسی دوسرے کاموں کے لیے۔

مشاورت نے حکومت کے اس رجحان پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے کہ وہ نہ صرف ملک کے فلاحی کردار کو کمزور کررہی ہے بلکہ ہندوستانی سماج میں موجود روایات خیر و فلاح کو بھی نقصان پہنچانا چاہتی ہے، نہایت افسوس کا مقام ہے کہ محتاجوں اور غریبوں کے لئے وقف املاک اور بھوکوں اور یتیموں کے نوالوں پر اس کی نظر بد ہے۔

a3w
a3w