بھوپال گیس سانحہ کیس، سپریم کورٹ کی جانب سے مرکز کی سرزنش
بنچ نے مزید کہا کہ سمجھوتہ دو فریقوں کے مابین ہوا ہے اور ایک فریق مرکزی حکومت ہے، جو کمزور فریق نہیں ہے۔ اے جی نے اپنے جواب میں کہا کہ صرف سمجھوتہ پر نظر ڈالی جائے آیا اس میں منصفانہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آج مرکز کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کیونکر سمجھوتے کا کیس دوبارہ شروع کیا جاسکتا ہے، جب کہ یونین کاربائیڈ بھوپال گیس سانحہ کے متاثرین کو پہلے ہی 470 ملین ڈالر سے زیادہ رقم ادا کرچکا ہے۔
عدالت نے یہ تشویش بھی ظاہر کی کہ ہنوز 50 کروڑ سے زیادہ رقم ابھی تک تقسیم نہیں کی گئی۔ جسٹس سنجے کشن کول کی زیرصدارت پانچ رکنی بنچ نے مرکز کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل اے جی آر وینکٹ رمنی سے کہا کہ سمجھوتہ ایک مخصوص مرحلہ پر کیا گیا تھا اور کیا عدالت 10 سال، 20 سال یا 30 سال بعد تازہ دستاویزات کی بنیاد پر دوبارہ کیس کی سماعت کرسکتی ہے؟
یونین کاربائیڈ کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ ہریش سالوے نے عدالت کو بتایا کہ نئے دستاویزات کے امثلہ جات پیش کیے گئے ہیں۔ بنچ نے اے جی سے مزید سوال کیا کہ کیا فیصلہ کی تصحیح کرنے کی درخواست میں تازہ دستاویزات داخل کرنے کی اجازت ہے؟ ۔
بنچ جس میں جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس اے ایس اوکا، جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس جے کے مہیشوری بھی شامل تھے، نے کہا کہ حکومت نے کوئی درخواست نظرثانی پیش نہیں کی ہے اور تصحیح کی درخواست 19 سال کے وقفہ کے بعد داخل کی گئی ہے۔
بنچ نے مزید کہا کہ سمجھوتہ دو فریقوں کے مابین ہوا ہے اور ایک فریق مرکزی حکومت ہے، جو کمزور فریق نہیں ہے۔ اے جی نے اپنے جواب میں کہا کہ صرف سمجھوتہ پر نظر ڈالی جائے آیا اس میں منصفانہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
جسٹس کول نے اے جی سے دریافت کیا کہ ایسی تصحیح کی درخواست پیش کرنے کی خصوصیت کے ساتھ اس وقت کیا گنجائش ہے۔ وینکٹ رمنی نے جواب دیا کہ سمجھوتہ میں ایک ترمیم کی گئی ہے اور ہم سمجھوتہ کو کالعدم کرنے کے لیے نہیں کہہ رہے ہیں۔
تب جسٹس کول نے دریافت کیا کہ کیونکر 50 کروڑ روپئے ابھی تک تقسیم نہیں کیے گئے؟ انھوں نے مزید کہا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ پیسہ حاصل نہیں کررہے ہیں اور کیا حکومت عوام تک پیسہ پہنچانے کی ذمہ دار نہیں ہے؟