دہلی
ٹرینڈنگ

بلقیس بانو کی عصمت ریزی کا ایک مجرم وکیل بن گیا ، سپریم کورٹ بھی حیرت زدہ

ملہوترا نے بتایا ”آج تقریباً ایک برس بیت گیا اور میرے خلاف ایک واحد مقدمہ بھی نہیں ہے۔ مجھے موٹر سیکل کلیمس ٹریبونل میں وکیل ہونا چاہئے تھا۔ میں ایک وکیل تھا اور میں نے دوبارہ وکالت شروع کردی ہے۔‘‘

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے اس احساس کا اظہار کیا ’قانون ایک ذی وقار پیشہ مانا جاتا ہے‘ اور تعجب کا اظہار کیا کہ کس طرح 2002 گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو اجتماعی عصمت ریزی اور اس کے ارکان خاندان کے قتل کے مقدمہ کا ایک سزاء یافتہ تخفیف سزاء کے باعث اپنی سزاء کے بعد قانون کی پراکٹس کرسکتا ہے۔

متعلقہ خبریں
کوہلی کو پیچھے چھوڑنا بہت مشکل ہے:اسٹیو اسمتھ
مذہبی مقامات قانون، سپریم کورٹ میں پیر کے دن سماعت
طاہر حسین کی درخواست ضمانت پرسپریم کورٹ کا منقسم فیصلہ
آتشبازی پر سال بھر امتناع ضروری: سپریم کورٹ
گروپI امتحانات، 46مراکز پر امتحان کا آغاز

 یہ معاملہ عدالت کے علم میں اس وقت آیا جب اڈوکیٹ رشی ملہوترا نے رادھے شام شاہ کی سزاء میں کی گئی تخفیف کا دفاع کرتے ہوئے جسٹس بی وی ناگارتھنا اور جسٹس اجل بھیویان کی بنچ سے کہا کہ ان کے موکل نے 15 برسوں کی حقیقی قید کی سزاء کاٹی ہے اور یہ کہ ریاستی حکومت نے اس کے بہتر اخلاق کا نوٹ لیتے ہوئے راحت دی ہے۔

 ملہوترا نے بتایا ”آج تقریباً ایک برس بیت گیا اور میرے خلاف ایک واحد مقدمہ بھی نہیں ہے۔ مجھے موٹر سیکل کلیمس ٹریبونل میں وکیل ہونا چاہئے تھا۔ میں ایک وکیل تھا اور میں نے دوبارہ وکالت شروع کردی ہے۔

“ عدالت نے کہا ”مابعد سزاء آیا پراکٹس کرنے کا لائسنس دیا جاسکتا ہے؟ قانون کے ایک ذی وقار پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ بار کونسل (آف انڈیا) کو بتانا پڑے گا کہ آیا ایک سزا یافتہ وکالت کرسکتا ہے۔ آپ ایک سزا یافتہ ہیں‘ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ آپ جیل کے باہر اس لئے ہیں کہ آپ کی سزا معاف کی گئی ہے۔ سزا باقی ہے اور قید میں تخفیف کی گئی ہے۔

“ شاہ کے وکیل نے کہا وہ اس بارے یقینی طور پر آگاہ نہیں ہیں۔ اڈوکیٹس ایکٹ کی دفعہ 24A بیان کرتی ہے کہ  اخلاقی خباثت کے جرم میں سزاء پانے والے شخص کا بہ حیثیت وکیل اندراج نہیں ہوسکتا۔

 یہ دفعہ یہ بھی بیان کرتی ہے کہ اندراج کی نااہلیت اس کی رہائی یا معزولی یا برخاستگی سے دو برسوں کی مدت بیت جانے کے بعد موقوف ہوجاتی ہے۔ ملہوترا نے بتایا کہ گجرات حکومت نے شاہ کو گودھرا جیل کے سپرنٹنڈنٹ اور تخفیف سزا کی کمیٹی سے نوآبجیکشن حاصل کرنے اور وزارت داخلہ کے ساتھ ساتھ قبل از وقت رہائی کے لئے مرکزی حکومت کی تمام سفارشات رکھتے ہوئے اس کو رہا کیا تھا۔

 ملہوترا نے بنچ سے کہا کہ تخفیف سزا کی پالیسیوں میں کہیں یہ صراحت نہیں ہے کہ تمام شراکت داروں کو ایک سزایافتہ کی رہائی کے لئے بہ اتفاق آراء رائے دینی چاہئے اور نہ ہی یہ صراحت ہے کہ یہ اکثریتی فیصلہ ہونا چاہئے جو فیصلہ سازی عمل میں غالب رہنا چاہئے۔

 یہ صرف اتنا کہتی ہے کہ قبل از پالیسی فیصلہ ریاستی حکومت کو مختلف گوشوں سے مختلف آراء حاصل کرنا چاہئے۔ گجرات حکومت نے بلقیس بانو کیس میں 11 سزایافتگان کو 1992 کی تخفیف سزا پالیسی کی اساس پر رہا کیا تھا نہ کہ 2014 میں اختیار کردہ پالیسی پر جو آج نافذ ہے۔

 2014 کی پالیسی کے تحت ریاست‘ سی بی آئی کی جانب سے تحقیق کردہ ایک جرم یا قتل مع عصمت ریزی یا اجتماعی عصمت ریزی پر سزاء پانے والوں کی سزا میں تخفیف نہیں کرسکتی۔ مقدمہ کی آئندہ سماعت 31 /اگست کو مقرر ہے۔