”بلڈوزر انصاف“ یکسرناقابل قبول:سپریم کورٹ، مکان کے انہدام پر ایک شخص کو 25 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے حکومت یوپی کو حکم
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ شہریوں کی جائیدادوں کو تباہ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے ان کی آوازوں کا گلا نہیں گھونٹا جاسکتا اور ”بلڈوزر انصاف“ قانون کی حکمرانی کے تحت ناقابل قبول ہے۔
نئی دہلی (منصف نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ شہریوں کی جائیدادوں کو تباہ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے ان کی آوازوں کا گلا نہیں گھونٹا جاسکتا اور ”بلڈوزر انصاف“ قانون کی حکمرانی کے تحت ناقابل قبول ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی زیرصدارت بنچ نے کہا کہ بلڈوزروں کے ذریعہ انصاف اب تک کسی بھی مہذب انصاف رسانی نظام کیلئے نامعلوم تھا اور ریاست کو غیرقانونی قبضوں کو ہٹانے یا غیرقانونی طور پر تعمیر کئے گئے ڈھانچوں کو منہدم کرنے سے پہلے مکمل قانونی طریقہ کار پر عمل کرنا ہوگا۔
بنچ نے جس میں جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا بھی شام تھے، کہا کہ بلڈوزر انصاف قانون کی حکمرانی کے تحت یکسر ناقابل قبول ہے۔ اگر اس کی اجازت دی جائے تو دستور کی دفعہ 300A کے تحت حق جائیداد محض ایک مردہ لفظ بن کر رہ جائے گا۔
دستور کی دفعہ 300A کہتی ہے کہ کسی بھی شخص کو قانونی اتھاریٹی کی جانب سے اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے۔ عدالت عظمیٰ نے 2019 میں اترپردیش کے ضلع مہاراج گنج میں ایک مکان کے انہدام سے متعلق معاملہ میں اپنا فیصلہ صادر کرتے ہوئے یہ بات کہی۔
یہ بتاتے ہوئے کہ ریاست جس طریقہ پر عمل کررہی ہے وہ جابرانہ ہے، بنچ نے حکومت اترپردیش کو حکم دیا کہ وہ درخواست گزار کو 25 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرے جس کا مکان ایک روڈ پراجکٹ کیلئے منہدم کردیا گیا تھا۔
6 نومبر کو صادر کئے گئے فیصلہ میں عدالت نے کہا کہ شہریوں کی جائیدادوں اور مکانات کو تباہ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے ان کی آوازوں کا گلا نہیں گھونٹا جاسکتا۔ 6 نومبر کا فیصلہ جو بعدازاں سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا گیا، اس میں مزید کہا گیا ہے کہ قانون سرکاری جائیدادوں اور غیرمجاز قبضوں کو معاف نہیں کرسکتا۔
بنچ نے کہا کہ میونسپل قوانین اور ٹاون پلاننگ قانون سازی موجود ہے جس میں غیرمجاز قبضوں سے نمٹنے کیلئے کافی گنجائش دستیاب ہے۔ عدالت نے کہا کہ ریاست کے عہدیدار جو ایسی غیرقانونی کارروائی کی منظوری دیتے ہیں ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جانی چاہئے۔