باہمی رضامندی سے جنسی تعلق کو عصمت ریزی نہیں کہا جاسکتا، دہلی ہائی کورٹ کا سنسنی خیز فیصلہ
کیس کی سماعت اور فیصلہ کے دوران جج نے اہم تبصرے کیے۔ انہوں نے کہا کہ عصمت ریزی خواتین کے خلاف ایک انتہائی سنگین جرم ہے، لیکن بعض خواتین اپنے ساتھ تعلق رکھنے والے مردوں کو ہراساں کرنے کیلئے قانون کا غلط استعمال کر رہی ہیں۔
نئی دہلی: باہمی رضامندی سے ہونے والے جنسی تعلق کو عصمت ریزی نہیں کہا جا سکتا، دہلی ہائی کورٹ نے اپنے ایک سنسنی خیز فیصلہ میں یہ بات کہی۔ عدالت نے واضح کیا کہ قانون کی دفعات کا استعمال بعض اوقات مردوں کو ہراساں کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے۔
یہ فیصلہ ایک نوجوان کی درخواست پر دیا گیا، جس نے اپنے خلاف درج ریزی کے مقدمہ کو خارج کرنے کی اپیل کی تھی۔ جسٹس چندر دھاری سنگھ کی سربراہی میں بینچ نے کہا کہ خاتون نے جان بوجھ کر یہ مقدمہ دائر کیا تھا۔ اس بنیاد پر پولیس کو نوجوان کے خلاف درج ایف آئی آر کو ختم کرنے کی ہدایت دی گئی۔
کیس کی سماعت اور فیصلہ کے دوران جج نے اہم تبصرے کیے۔ انہوں نے کہا کہ عصمت ریزی خواتین کے خلاف ایک انتہائی سنگین جرم ہے، لیکن بعض خواتین اپنے ساتھ تعلق رکھنے والے مردوں کو ہراساں کرنے کیلئے قانون کا غلط استعمال کر رہی ہیں۔
نوجوان کی جانب سے پیش کیے گئے واٹس ایپ چیٹ اور ریکارڈنگز کے مطابق دونوں نے باہمی رضامندی سے جسمانی تعلق قائم کیا تھا۔ جج نے کہا کہ خواتین کی جانب سے قانون کے غلط استعمال سے مردوں کو جو مشکلات پیش آتی ہیں، یہ کیس اس کی واضح مثال ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے معاملات میں عدالتوں کو شکایت کنندہ کے ارادوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے۔ حکومت کی جانب سے وکیل نے کہا کہ خاتون نے نوجوان پر سنگین الزامات لگائے ہیں، اس لیے مقدمہ ختم نہ کیا جائے۔ جواب میں جج نے کہا کہ شواہد کے مطابق دونوں شادی کرنا چاہتے تھے، لیکن مختلف ذاتوں سے ہونے کی وجہ سے ان کے خاندانوں نے اعتراض کیا۔
نوجوان نے عدالت کو بتایا کہ وہ خاندان کی مخالفت کے باوجود شادی کے لیے تیار تھا، لیکن خاتون نے دوسرے شخص سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ جج نے کہا کہ اس معاملے میں ایف آئی آر بدنیتی پر مبنی تھی، اس لیے مقدمہ ناقابل قبول ہے۔