شمالی بھارت

آسام حکومت کا متنازعہ فیصلہ: ہیمنت بسوا شرما نے آدھار کارڈ کیلئے این آر سی نمبر کو لازمی قرار دے دیا!

آسام حکومت نے ایک اور متنازعہ فیصلہ کرتے ہوئے آدھار کارڈ کے حصول کیلئے این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) نمبر کو لازمی قرار دے دیا ہے۔ اس اقدام کے تحت آسام کے شہریوں کو آدھار کارڈ بنوانے کے لیے این آر سی نمبر فراہم کرنا ہوگا

گواہاٹی: آسام حکومت نے ایک اور متنازعہ فیصلہ کرتے ہوئے آدھار کارڈ کے حصول کیلئے این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) نمبر کو لازمی قرار دے دیا ہے۔ اس اقدام کے تحت آسام کے شہریوں کو آدھار کارڈ بنوانے کے لیے این آر سی نمبر فراہم کرنا ہوگا، جو ریاست میں شہریت کی تصدیق کا ایک متنازعہ عمل رہا ہے۔

متعلقہ خبریں
راہول گاندھی کے ڈپلیکیٹ کا عنقریب انکشاف کروں گا: چیف منسٹر آسام
سی اے اے، این آر سی کے خلاف شہر حیدرآباد کا ملین مارچ احتجاج تاریخی : محمد مشتاق ملک
سی اے اے اور این آر سی قانون سے لاعلمی کے سبب عوام میں خوف وہراس
این آر سی نافذ کیاجائے گا: رگھوبرداس

وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے اس فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام آسام میں غیر قانونی طور پر غیرملکیوں کی آمد کو روکا جاسکے۔ شرما نے کہا کہ آدھار ایک اہم دستاویز ہے جس کے ذریعہ حکومت کو شہریوں کو مختلف فلاحی اسکیموں اور خدمات کا فائدہ پہنچانے میں مدد ملتی ہے اور اس کی درستگی کو یقینی بنانے کے لیے این آر سی نمبر کا ہونا ضروری ہے۔

این آر سی کا عمل آسام میں 2019 میں مکمل ہوا تھا، جس میں لاکھوں افراد کو شہریت ختم کردی گئی تھی۔ اب، آسام حکومت کے اس نئے فیصلے کے بعد آدھار کارڈ کے لیے این آر سی نمبر کا ہونا ضروری قرار دے دیا گیا ہے، جس سے ان افراد کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جن کا نام این آر سی کی حتمی فہرست میں شامل نہیں تھا۔

آسام کے عوام اور مختلف سیاسی جماعتوں نے اس فیصلے پر شدید اعتراضات کیے ہیں۔ کئی سیاسی قائدین اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ عوام کے لیے مشکلات کا باعث بنے گا، خصوصاً ان افراد کے لیے جن کا نام این آر سی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ فیصلہ غیر منصفانہ اور امتیازی سلوک پر مبنی ہے۔

وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا شرما نے کہا کہ یہ فیصلہ ریاست کی سیکیورٹی اور غیر قانونی تارکین وطن کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ضروری ہے۔

آسام حکومت کے اس فیصلے کے بعد ریاست میں سیاسی اور سماجی سطح پر کافی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر حکومت نے یہ فیصلہ واپس نہ لیا تو وہ اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے تیار ہیں۔