رام مندر کے پجاری اور ٹرسٹ کے درمیان اختلافات آشکار

ستیندر داس نے اس انتظام کے بارے میں پوچھا کہ آیا پجاریوں کے بجائے ٹرسٹ کے ورکرس کی جانب سے بھکتوں میں پرساد کی تقسیم درست ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ٹرسٹ میں کتنے لوگ ہیں اور احکام جاری کرنے کے اختیارات کسے حاصل ہیں۔

ایودھیا: رام مندر کے بڑے پجاری آچاریہ ستیندر داس نے عارضی مندر سے جہاں مورتی نصب کی گئی ہے، بھکتوں میں پرساد کی تقسیم روک دینے شری رام جنم بھوم تیرتھ شیتر ٹرسٹ کے فیصلہ پر اعتراض کیا ہے۔ یہ مورتی، رام مندر کی تعمیر تک ایک عارضی ڈھانچہ میں نصب کی گئی ہے۔ قبل ازیں 22 دسمبر 1949ء کو اسے مسجد کے اندر رکھا گیا تھا۔

ایک نئے انتظام کے تحت جس پر گذشتہ چند دن سے عمل آوری ہورہی ہے، ٹرسٹ کے کارکنوں کو مندر سے کچھ فاصلہ پر پرساد تقسیم کرنے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔ 25 جنوری 1986ء سے جب بابری مسجد کا تالا کھولا گیا تھا اور رام کی پوجا کرنے کا راستہ ہموار کیا گیا تھا، وہاں سے پرساد تقسیم ہورہا تھا۔

ستیندر داس نے اس انتظام کے بارے میں پوچھا کہ آیا پجاریوں کے بجائے ٹرسٹ کے ورکرس کی جانب سے بھکتوں میں پرساد کی تقسیم درست ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ٹرسٹ میں کتنے لوگ ہیں اور احکام جاری کرنے کے اختیارات کسے حاصل ہیں۔ جو بھی کہیں سے آتا ہے وہ ٹرسٹی بن جاتا ہے۔

انہوں نے چند افراد کانام لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس غلط طریقہ کے پس پردہ وہی کارفرما ہے۔ رام جنم بھومی ٹرسٹ کے آفس انچارج پرکاش گپتا نے اس مسئلہ کے بارے میں بتایا کہ ہم نے تمام کاموں کی درست انداز میں انجام دہی کے لیے یہ میکانزم متعارف کرایا ہے۔

 انھوں نے دعویٰ کیا کہ جب پرساد مندر سے تقسیم ہورہا تھا تو بھکتوں کی آمد و رفت میں رکاوٹ ہورہی تھی، اسی لیے ہم نے مندر سے کچھ فاصلہ پر ایک اسٹال کا انتظام کیا ہے، جہاں سے ہم پرساد تقسیم کررہے ہیں۔ بھکتوں کے لیے یہ انتظام باعث ِ راحت ہے، کیوں کہ انہیں پرساد کے حصول کے لیے ہجوم میں پھنسنا نہیں پڑتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button