تعلیم و روزگارتلنگانہ

معذور نوجوان نے تعلیم کو ہتھیار بناکر لکچرر بن کر کامیابی حاصل کی

امتحانات میں کم نمبر آنے یا ناکام ہونے پر کئی طلبہ مایوسی کا شکار ہو کر خودکشی کرلیتے ہیں۔ روزگار کے مواقع نہ ملنے پر کچھ نوجوان برے نشہ کا شکار ہورہے ہیں لیکن ایک نوجوان، جو پیدائشی طور پر معذور ہے، نے زندگی کو چیلنج کے طور پر قبول کیا۔

حیدرآباد: امتحانات میں کم نمبر آنے یا ناکام ہونے پر کئی طلبہ مایوسی کا شکار ہو کر خودکشی کرلیتے ہیں۔ روزگار کے مواقع نہ ملنے پر کچھ نوجوان برے نشہ کا شکار ہورہے ہیں لیکن ایک نوجوان، جو پیدائشی طور پر معذور ہے، نے زندگی کو چیلنج کے طور پر قبول کیا۔

اس نے اپنی معذوری کو رکاوٹ نہ بناتے ہوئے خود روزگار کے مواقع پیدا کرنے کا فیصلہ کیا اور تعلیم کو ہتھیار بنا کر محنت کے ذریعہ سرکاری گزیٹیڈ عہدے پر لکچرر بن کر کامیابی حاصل کی۔یہ نوجوان ریواپیا، تلنگانہ کے ضلع سنگاریڈی کے دھرم پور سے تعلق رکھنے والے راچیا سوامی اور بسواماں کا بیٹا ہے۔

وہ بچپن سے پولیو اور پٹھوں کے کمزور ہونے کی بیماری میں مبتلا ہے، حتیٰ کہ اپنی ذاتی ضروریات بھی پوری نہیں کرسکتا۔ ماں روزانہ اسے گود میں اٹھا کر اسکول لے جاتی تھی۔ والدین کی محنت اور حوصلہ افزائی سے اس نے تعلیم جاری رکھی۔

خاندان کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اس نے فیصلہ کیا کہ وہ پڑھ لکھ کر ان کا سہارا بنے گا اور اسی ہدف کو حاصل کرلیا۔اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ریواپیا نے مسابقتی امتحانات کی تیاری کی۔ 2022 میں سرکاری جونیئر لکچرر کے عہدہ کے لیے امتحان دیا اور مارچ 2025 میں ملازمت حاصل کرلی۔

ابتدا میں اسے پٹن چیرو کے رام چندرا پورم کالج میں تعینات کرنے کا حکم آیا، مگر سفر کی دشواری کے باعث اس نے محکمہ تعلیم کے کمشنر سے درخواست کی جس پر اسے سنگاریڈی کے ویمنس جونیئر کالج میں ڈیوٹی کی اجازت مل گئی۔کوچنگ کے لیے اس کے پاس مالی وسائل نہیں تھے اور جسمانی حالت کے باعث عام طریقہ سے بیٹھ کر پڑھنا ممکن نہ تھا۔

اس لیے وہ گھر پر ہی زمین پر لیٹ کر کتابوں اور سوشل میڈیا کے ذریعہ تیاری کرتا رہا۔ وہ بتاتا ہے کہ اس کا مقصد تلگو کا استاد بننا تھا اور اسی جذبہ سے محنت جاری رکھی۔ وہ کہتا ہے کہ اس کی اور اس کی بہن کی سرکاری ملازمت نے خاندان کو مالی مشکلات سے کافی حد تک نکال دیا ہے۔حکومت کی جانب سے فراہم کردہ تین پہیوں والی گاڑی سے وہ آمد و رفت کرتا ہے۔

بڑھتی عمر اور وزن کے باعث والدین کے لیے اسے اٹھانا مشکل ہوگیا، اس لیے ایک مددگار کو تنخواہ دے کر رکھا گیا۔ کالج میں بھی اساتذہ اور طلبہ اس کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ریواپیا اپنی ذہانت کو ہتھیار بنا کر نہ صرف طلبہ کو بامعنی تعلیم فراہم کر رہا ہے بلکہ ساتھی اساتذہ کے لیے بھی تحریک کا ذریعہ بنا ہے۔

اس کے طلبہ بتاتے ہیں کہ ریواپیا سر کے آنے کے بعد ہی انہیں تلگو مضمون میں مہارت حاصل ہوئی۔ وہ تلگو اشعار کی صحیح ادائیگی اور وضاحت کے ساتھ پڑھاتے ہیں، جس سے مضمون میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔

یہاں تک کہ جن طلبہ نے پہلے تلگو مضمون نہیں لیا تھا، انہوں نے بھی اس کے پڑھانے کے انداز سے متاثر ہو کر اسے منتخب کیا۔ریواپیا کہتا ہے کہ جسمانی کمزوری کے باوجود وقت کا صحیح استعمال اور واضح مقصد طے کرنے سے کامیابی ممکن ہے۔ اس نے نوجوانوں کو مشورہ دیا کہ وہ گمراہ ہونے کے بجائے خاندان کی معاشی حالت کو یاد رکھتے ہوئے آگے بڑھیں۔