مذہب

مسلمان خواتین کی ہسپتالوں میں ملازمت

معتدل اور عام حالات میں کسی عورت کے لیے اجنبی مرد کی تیمارداری جائز نہیں ، کہ اس میں فتنہ کے اندیشے ہیں، اور انہیں اندیشہ ہائے دور دراز نہیں سمجھنا چاہئے ، بلکہ ہسپتالوں میں اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں،

سوال:- مریضوں کی خدمت اور تیمارداری کے لیے نرسز رکھی جاتی ہیں، کیا نرسنگ کا کام مسلمان عورتوں کے لیے جائز ہے؟ ( ایک دینی بہن)

جواب:- معتدل اور عام حالات میں کسی عورت کے لیے اجنبی مرد کی تیمارداری جائز نہیں ، کہ اس میں فتنہ کے اندیشے ہیں، اور انہیں اندیشہ ہائے دور دراز نہیں سمجھنا چاہئے ، بلکہ ہسپتالوں میں اس طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں،

اس لیے اس بات کی تو گنجائش ہے کہ جو وارڈ خواتین کے لیے مخصوص ہوں ، ان میں خواتین نرس کا کام انجام دیں اور شرعی حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے فرائض پورے کریں ،

مردوں کے وارڈ میں عورتوں کا بہ حیثیت نرس کام کرنا یا مرد ڈاکٹر کے ساتھ ان کی تنہائی یا ان کے ایسے لباس یا یونیفارم میں رہنا جو اسلامی حجاب کے تقاضوں کو پورا نہ کرتے ہوں ، جائز نہیں، یہ مسلمان بہنوں کے لیے قید و بند نہیں، بلکہ ان کی حفاظت و صیانت کی کوشش ہے،

غیر معمولی حالات جیسے اچانک کسی آفتِ سماوی کا آجانا جس سے بہت سے لوگ ہلاک ہوجائیں ، یا جنگی حالات کا معاملہ ، اس سے کسی قدر مختلف ہے ، ایسے مواقع پر اگر زخمیوں کی تیمارداری کے لیے مرد فراہم نہ ہوں تو خواتین بھی شرعی حدود کی ممکن حد تک رعایت کے ساتھ تیمار داری کرسکتی ہیں،

چنانچہ امام بخاری ؒ نے ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نقل کیا ہے کہ ہم لوگ حضور ا کے ساتھ ( جنگ کے موقع پر ) پانی لاتے تھے، زخمیوں کا علاج کرتے تھے ، اور مقتولوں کو منتقل کرتے تھے، (صحیح البخاری :۱/۴۰۳ )

بخاری کے حاشیہ پر اس کے ذیل میں لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے موقع پر اجنبی عورت اجنبی مرد کا علاج کرسکتی ہیں :’’ فیہ جواز معالجۃ المرأۃ الأجنبیۃ للرجل الأجنبي للضرورۃ‘‘ (حاشیۃ علی صحیح البخاری : ۱/۴۰۳ ) لیکن جیسا کہ مذکور ہوا کہ خصوصی اور غیر معمولی حالات پر عام حالات کو قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔
٭٭٭

a3w
a3w