مذہب

جبراً طلاق نامہ پر دستخط

میرے شوہر کی عمر55 سال اور میری عمر 47 سال ہے، دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں، چار نواسے نواسیاں ہیں، بیٹا بھی ماشاء اللہ شادی کے قابل ہے، ہم دونوں میاں بیوی میں معمولی سی بات پر جھگڑا ہوا اور بحث و تکرار کے بعد میں بضد تھی کہ وہ مجھے طلاق دیں؛

سوال:- میرے شوہر کی عمر55 سال اور میری عمر 47 سال ہے، دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں، چار نواسے نواسیاں ہیں، بیٹا بھی ماشاء اللہ شادی کے قابل ہے، ہم دونوں میاں بیوی میں معمولی سی بات پر جھگڑا ہوا اور بحث و تکرار کے بعد میں بضد تھی کہ وہ مجھے طلاق دیں؛

متعلقہ خبریں
طلاق کے لئے صرف نیت کافی نہیں
خواتین کا محرم کے بغیر سفر
گناہ سے بچنے کی تدبیریں
گائے کے پیشاب سے علاج
ناپاکی کا دھبہ صاف نہ ہو

لیکن میرے شوہر اس کے لئے بالکل ہی تیار نہیں تھے، بیوی نے اپنے ہاتھ سے تحریر لکھی کہ میں تمہیں تین طلاق دیتا ہوں، اور ان سے دستخط کرنے کے لئے کہا؛ لیکن شوہر ہرگز تیار نہیں تھے، دستخط کرنے کے لئے، لیکن میں نے بہت زور ڈالا، اس کے باوجود بھی وہ تیار نہیں تھے،

آخر کار میں گلے میں دوپٹہ پھنساکر ان سے زبردستی دستخط کے لئے کہا، انھوں نے ڈر و خوف کے مارے دستخط کردیئے، اب میرے شوہر کا یہ کہنا ہے کہ وہ اللہ کو حاضر و ناظر جان کر کہتے ہیں کہ میرے دل سے ہرگز طلاق دینے کا نہیں تھا، محض تمہاری جان بچانے کے لئے ایسا کیا،

مقامی مفتیوں نے بھی کہا کہ یہ طلاق واقع نہیں ہوئی؛ لیکن میرا ضمیر مطمئن نہیں، مہربانی فرماکر آپ اس مسئلہ کا شرعی حل بتائیں۔ (ام کلثوم، کریم نگر)

جواب: – اول تو یہ بات یاد رکھئے کہ جیسے مرد کے لئے کسی مناسب سبب کے بغیر طلاق دینا گناہ ہے، اسی طرح عورت کے لئے کسی معقول وجہ کے بغیر طلاق کا مطالبہ کرنا سخت منع ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی عورتوں کے بارے میں جو اس طرح طلاق کا مطالبہ کرے، فرمایا کہ وہ جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہیں گی: أیما امرأۃ اختلعت من زوجھا من غیر بأس لم ترح رائحۃ الجنۃ ‘‘ (ترمذی، باب ماجاء فی المختلعات، حدیث نمبر: ۱۱۸۶)

اس لئے معمولی سے جھگڑے کی بناپر طلاق کا مطالبہ گناہ کی بات ہے اور جب خاندان کی عمر دراز عورتیں اس طرح کی حرکتیں کریں گی تو بیٹیوں اور بہوؤں پر بھی اس کا اثر پڑے گا؛ اس لئے طے کرلیجئے کہ پھر آئندہ طلاق و خلع کا لفظ اپنی زبان پر نہ لائیں گے –

شوہر کے طلاق نامہ پر دستخط کرنے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ بیوی سامنے موجود تھی؛ لیکن اس نے صرف دستخط کیا، زبان سے کچھ نہیں کہا، تو اس صورت میں شوہر کو مجبور کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو، طلاق واقع نہیں ہوگی؛ کیوںکہ جب بیوی موجود ہو اور زبان سے طلاق دی جاسکتی ہو تو صرف لکھ دینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی، اور اگر بیوی سامنے موجود نہ ہو اور شوہر کو طلاق لکھنے یا دستخط کرنے پر مجبور کردیا گیا ہو؛ لیکن زبان سے اس نے طلاق کے الفاظ نہیں کہے، تب بھی طلاق واقع نہیں ہوگی،

دوسری صورت یہ ہے کہ شوہر نے زبان سے طلاق کے کلمات کہے تو چاہے مجبوری کی وجہ سے طلاق کے کلمات کہے ہوں یا بغیر مجبوری کے، ہر دو صورت میں طلاق واقع ہوجائے گی:

وقید بکونہ علی النطق لأنہ لو أکرہ علی أن یکتب طلاق امرأتہ، فکتب لا تطلق لأن الکتابۃ اقیمت مقام العبارۃ باعتبار الحاجۃ ولا حاجۃ ھنا، کذا فی الخانیۃ ‘‘ (البحر الرائق، کتاب الطلاق: ۳؍۲۶۴)

بہر حال آپ نے جو صورت لکھی ہے، اس کے مطابق شوہر کے طلاق نامہ پر دستخط کرنے کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوئی؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھیں طلاق پر مجبور بھی کیا گیا؛ اس لئے بدرجۂ اولیٰ طلاق واقع نہیں ہوگی۔