گودھرا سانحہ: بے گناہوں کی باعزت رہائی تک ہماری قانونی جدوجہد جاری رہے گی: مولانا ارشدمدنی
عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ یہ مقدمہ بہت بڑا ہے اور نچلی عدالت کا ریکارڈ گجراتی زبان میں ہے لہذا حتمی بحث شروع کرنے سے پہلے مقدمہ سے جڑے گجراتی زبان کے تمام دستاویزات کا انگریزی ترجمہ ہونا ضروری ہے۔
نئی دہلی: ایودھیا سے بذریعہ سابرمتی ٹرین 27فروری 2002 کو واپس آنے والے 59 کار سیوکوں کومبینہ طورپر زندہ جلانے کے الزامات کے تحت ہائی کورٹ سے عمر قید کی سزا پانے والے ملزمین کی اپیلوں پر حتمی سماعت کے لیئے سپریم کورٹ رضامند ہوگئی ہے۔
جمعیۃ علما ہند کی جاری ریلیز کے مطابق گذشتہ دنوں اس اہم معاملے کی سماعت سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ جسٹس جے کے مہیشوری اور جسٹس کے وی وشوناتھن کے روبرو عمل میں آئی جس کے دوران عدالت نے حکومت کو حکم دیا کہ وہ تمام عدالتی ریکارڈ جو گجراتی زبان میں ہے۔
اس کا انگریزی زبا ن میں ترجمہ کرکے پیپر بک کی شکل میں عدالت میں داخل کرے۔عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ یہ مقدمہ بہت بڑا ہے اور نچلی عدالت کا ریکارڈ گجراتی زبان میں ہے لہذا حتمی بحث شروع کرنے سے پہلے مقدمہ سے جڑے گجراتی زبان کے تمام دستاویزات کا انگریزی ترجمہ ہونا ضروری ہے۔
عدالت نے وکیل استغاثہ کو کہا کہ ریاستی حکومت نے بری ہونے والے ملزمین اور پھانسی کی سزا سے عمر قید کی سزا پانے والے ملزمین کے خلاف بھی اپیل داخل کی ہے لہذا یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نچلی عدالت کا ریکارڈ تیار کرے تاکہ عدالت سیشن عدالت اور ہائی کورٹ کے فیصلہ پر نظر ثانی کرسکے۔
عدالت نے ریاستی حکومت کی نمائندگی کرنے والی ایڈوکیٹ سواتی گھیلدیا ل کو حکم دیا کہ وہ 15/ فروری 2024 تک تمام ضروری کارروائیاں مکمل کرے تاکہ عدالت مارچ 2024 سے مقدمہ کی حتمی سماعت شروع کرسکے۔
دوران سماعت سپریم کورٹ میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ ارشاد احمد اور ایڈوکیٹ قرۃ العین بھی موجود تھیں جنہیں عدالت نے حکم دیا کہ وہ استغاثہ کے ساتھ ملکر پیپر بک کی تیاری میں ان کی مدد کریں تاکہ وقت پر حتمی بحث شروع کی جاسکے۔
واضح رہے کہ ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر(ارشد مدنی) کے توسط سے گجرات ہائی کورٹ سے عمر قید کی سزاء پانے والے 31 ملزمین نے سپریم کورٹ میں اپیل داخل کی تھی۔
ملزمین کی جانب سے اپیلیں 2018 میں داخل کی گئی تھی، اپیلوں پر سماعت نہیں ہونے کی وجہ سے چند ملزمین کی ضمانتی عرضداشتیں بھی داخل کی گئی تھیں جنہیں عدالت نے منظور کرلیا تھا جبکہ بقیہ ملزمین کی ضمانتی عرضداشتیں مسترد کرتے ہوئے معاملے کی حتمی سماعت کئے جانے کا حکم جاری کیا گیا تھا۔
صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے سپریم کورٹ کے گودھراسانحہ کو حتمی سماعت کے لئے تیارہونے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند ملزمین کو بری کرانے کے لئے ملک کے نامورکریمنل وکلاء کی خدمات حاصل کرے گی اوران کے مقدمات کو مضبوطی سے لڑے گی۔
ہمیں پورایقین ہے کہ عدالت عظمی سے ان نوجوانوں کو مکمل انصاف ملے گا۔ مولانا مدنی نے مزید کہا کہ اکثرمعاملوں میں نچلی عدالتیں سخت فیصلہ دیتی ہیں لیکن سپریم کورٹ سے ملزمین کو راحت حاصل ہوتی ہے۔
ہمیں امید ہے کہ اس معاملہ میں بھی سپریم کورٹ سے ان ملزمین کوجو 21 سال سے جیلوں میں بند ہیں راحت ملے گی۔ اسی طرح ہمیں امیدہے کہ ہم ان کو بھی عمرقید کی سزاؤں سے سے بچانے میں کامیاب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ گودھر ا مقدمہ اپنی نوعیت کا ایک بہت بڑا مقدمہ ہے جس میں تحقیقاتی دستوں نے قتل، اقدام قتل اور مجرمانہ سازش کے الزامات کے تحت 94 مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا اور ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا ۔
جہاں نچلی عدالت نے ثبوتوں کی عدم موجودگی کے سبب 63 ملزمین کو باعزت بردی کردیا تھا وہیں 20/ ملزمین کو عمر قید اور 11/ دیگر ملزمین کو پھانسی کی سزاء سنائی گئی تھی۔
۹/ اکتوبر2017 کو گجرا ت ہائی کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس اننت ایس دوے اور جسٹس جی آر وادھوانی نے اپنے 987/ صفحات پر مشتمل فیصلہ میں ایک جانب جہاں نچلی عدالت سے ملی عمر قید کی سزاؤں کو برقرار رکھا تھا وہیں پھانسی کی سزاؤں کو عمر قید میں تبدیل کرکے ملزمین کو کچھ راحت دی تھیں۔
ملزمین بلال احمد عبدالمجید، عبدالرزاق، رمضانی بنیامین بہیرا،حسن احمد چرخہ،جابر بنیامین بہیرا، عرفان عبدالمجید گھانچی،عرفان محمد حنیف عبدالغنی، محبو احمد یوسف حسن، محمود خالد چاندا، سراج محمد عبدالرحمن، عبدالستار ابراہیم، عبدالراؤف عبدالماجد،یونس عبدالحق،
ابراہیم عبدالرزاق، فارق حاجی عبدالستار، شوکت عبداللہ مولوی، محمد حنیف عبداللہ مولوی،شوکت یوسف اسماعیل،انور محمد،صدیق ماٹونگا عبداللہ بدام شیخ،محبوب یعقوب، بلال عبداللہ اسماعیل، شعب یوسف احمد، صدیق محمد مورا،سلیمان احمد حسین، قاسم عبدالستارکی جانب سے داخل اپیلوں پر سپریم کورٹ پیپر بک تیار ہوجانے کے بعد سماعت کریگی۔