سوشیل میڈیا
ٹرینڈنگ

پانی پوری بیچنے والے کو جی ایس ٹی کی نوٹس، سالانہ زائد از 40 لاکھ روپئے کی آن لائن وصولی کا شاخسانہ

ٹاملناڈو کا ایک پانی پوری بیچنے والا جی ایس ٹی حکام کی تحقیقات کے دائرہ میں آگیا ہے کیوں کہ مالیاتی سال 2023-24 کے دوران اسے 40 لاکھ روپئے آن لائن ادائیگیوں کے ذریعہ حاصل ہوئے تھے۔

نئی دہلی: ٹاملناڈو کا ایک پانی پوری بیچنے والا جی ایس ٹی حکام کی تحقیقات کے دائرہ میں آگیا ہے کیوں کہ مالیاتی سال 2023-24 کے دوران اسے 40 لاکھ روپئے آن لائن ادائیگیوں کے ذریعہ حاصل ہوئے تھے۔

متعلقہ خبریں
ٹاملناڈو ٹرین حادثہ، مرکز پر راہول گاندھی کی تنقید
پٹاخے کی فیکٹری میں دھماکہ سے 11 مزدوروں کی موت، پانچ زخمی
ذات پات کی ہراسانی کی شکایت پر دلت بہن بھائی پر گھر کے اندر درانتیوں سے حملہ
تامل ناڈو میں ’کیرالا اسٹوری‘ کی ریلیز، سخت سیکیوریٹی انتظامات

اس تاجر کو ٹاملناڈو جی ایس ٹی ایکٹ اور سنٹرل جی ایس ٹی ایکٹ کی دفعہ 70 کے تحت 17 دسمبر 2024ء کو سمن جاری کیے گئے ہیں۔ جی ایس ٹی قواعد کے تحت سالانہ زائد از 40 لاکھ ٹرن اوور رکھنے والوں کے لیے رجسٹریشن کرانا اور ٹیکس کے اصولوں کی پابندی کرنا لازم ہے۔

یہ نوٹس جو سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے، اس میں تاجر کو شخصی طور پر حاضر ہونے اور گزشتہ تین سال کے مالیاتی لین دین سے متعلق دستاویزات پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ عہدیداروں کا مقصد اس تاجر کی کمائی کا پتہ چلانا ہے۔ گزشتہ مالیاتی سال کے دوران ڈیجیٹل پلیٹ فارمس کے ذریعہ وصول ہونے والی رقومات پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے گی۔

اس نوٹس میں یہ بات اجاگر کی گئی ہے کہ جی ایس ٹی رجسٹریشن کے بغیر 40 لاکھ سالانہ ٹرن اوور کی حد پار کرنے کے باوجود اشیاء یا خدمات کی فراہمی کو جرم تصور کیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ صارفین نے اس نوٹس پر ردّ ِ عمل ظاہر کیا ہے۔ ایک صارف نے تحریر کیا 40 لاکھ وہ رقم ہے جو اس شخص کو حاصل ہوئی ہے۔

یہ اس کی آمدنی ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی۔ آپ کو اس رقم سے اجزاء کی لاگت، انسانی وسائل کے اخراجات اور دیگر اخراجات منہا کرنے ہوں گے۔ ایک اور صارف نے تحریر کیا میں سمجھتا ہوں کہ زائد از 50 فیصد افراد نے نقد ادائیگیاں کی ہوں گی کیوں کہ رقم بمشکل 50 تا 100 روپئے ہوتی ہے۔

میرا یہ ماننا ہے کہ وہ کم از کم 60 لاکھ روپئے سالانہ کما رہا ہوگا۔ یہ رقم کئی میڈیکل کالجس میں کام کرنے والے پروفیسروں کی اعلیٰ ترین تنخواہ سے بھی زیادہ ہے۔ یہ تاجر اپنے بلوں میں جی ایس ٹی جمع کرسکتا ہے اور حکومت کو ٹیکس ادا کرسکتا ہے، تاہم وہ اپنے ساتھی تاجرین کے مقابلہ میں نقصان اٹھائے گا، کیوں کہ وہ اس سے کم دام پر مال بیچیں گے۔ محکمہئ انکم ٹیکس کی کارروائی سے لوگ نقد لین دین کو ترجیح دینے لگیں گے۔