شادی میں جلد بازی اور ناعاقبت اندیشی نے یہ دن دکھایا۔ ایک سچا واقعہ
بظاہر لڑکا ایک انجینئر ہے اور اس کی بہت اچھی تنخواہ ہے لیکن اس کی بیوی نے اس کے خلاف کئی مقدمات مقامی عدالت میں دائر کررکھے ہیں۔ ان لوگوں نے لڑکی اور اس کے ماں باپ کو زبردست دھوکہ دیا۔
ایک جانب طلاق و خلع کا طوفان تو دوسری جانب خلع یا باعزت علاحدگی کیلئے عورتوں کی تڑپ مسلم معاشرہ ایک بحران کا شکار ہورہا ہے
شادی کے ابتدائی دنوں میں اگر حالات ناسازگار ہوں تو ’’ طلاقِ تفویض ‘‘ کے اصول کا فائدہ اٹھانا چاہیے
حالیہ ایک واقعہ جو ہمارے علم میں لایا گیا ‘ اس مضمون کی تحریر و اشاعت کا محرک بنا۔ گو کہ اس مضمون میں سابق میں کئی مرتبہ مضامین شائع ہوئے اور گزشتہ مضمون شائد دو سال قبل شائع ہوا تھا۔ لیکن لوگوں کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے اور ایسی باتوں کو وہ بھول جاتے ہیں لہٰذا اس مضمون پر ایک اور اظہارِ خیال اور اشاعتِ رائے شائد وقت کی ضرورت ہے اور شائد کچھ متاثرہ حضرات کو بھی کچھ فائدہ حاصل ہوسکے۔
واقعہ : ایک ایم۔فارمیسی لڑکی کی شادی بہت ہی شاندار طریقہ پر انجام پائی۔ جہیز میں بیس تولے سونے کے زیورات دیئے گئے۔ شادی ایک شاندار فنکشن ہال میں انجام پائی جس میں دیڑھ ہزار مہمانوں کو مدعو کیا گیا۔
شادی کے جملہ اخراجات چالیس پچاس لاکھ روپیہ سے کچھ زیادہ ہی آئے۔ یہ شادی بہت ہی عجلت میں انجام پائی ۔ لڑکے کا سارا خاندان امریکہ میں رہتا ہے۔ والدین ایک ریاست میں تو لڑکے کے کام کی جگہ ایک دور دراز ریاست میں ۔
شادی کے بعد لڑکی والوں سے وعدہ کیاگیا کہ بہت جلد لڑکی کو امریکہ بلالیا جائے گا کیوں کہ لڑکا اور اس کے والدین امریکہ کے شہری ہیں۔
شادی کے بعد کچھ دن گزرے ۔ دن مہینوں میں اور مہینے تین سال میں تبدیل ہوگئے۔ لیکن لڑکی کو واپس نہیں بلایا جاسکا۔ امریکہ کی مقامی جاسوسی ایجنسی سے پتہ چلایا گیا تو معلوم ہوا کہ لڑکا پہلے ہی سے شادی شدہ ہے اور اس کی بیوی ایک امریکن عورت ہے جو اس سے (Alimony) یعنی نفقہ کی رقم عدالت کے حکم کے تحت حاصل کرتی ہے۔
بظاہر لڑکا ایک انجینئر ہے اور اس کی بہت اچھی تنخواہ ہے لیکن اس کی بیوی نے اس کے خلاف کئی مقدمات مقامی عدالت میں دائر کررکھے ہیں۔ ان لوگوں نے لڑکی اور اس کے ماں باپ کو زبردست دھوکہ دیا۔
آخرِ کار لڑکی والوں نے خلع کا مطالبہ کیا لیکن لڑکا اس پر راضی نہیں۔ امریکہ میں قانونی رائے لی گئی جہاں یہ معلوم ہوا کہ چونکہ شادی ہندوستان میں ہوئی ہے‘ امریکہ میں قانونی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔
آخرِ کار لڑکے پر بہت ہی زور ڈالا گیا اور مقامی لوگوں سے مدد حاصل کی گئی اور آخرِ کار علاحدگی کی کارروائی ہوئی۔ لڑکی نے ایک کام اچھا کیا کہ تمام زیورات اپنے ہی پاس رکھے ورنہ زیورات سے محروم ہوجاتی۔ اس کی عصمت۔ خاندان کی آبرو ایک دھوکہ باز اور اس کے والدین کے ہاتھوں برباد ہوگئی۔
اس تکلیف دہ واقعہ یا سانحہ کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے ۔ یہ صرف لڑکی کے والدین کی جلد بازی کا نتیجہ ہے۔ اگر لڑکی کے والدین نے یہ شادی جلد بازی میں نہ کی ہوتی اور اجنبیوں پر بھروسہ نہ کیا ہوتا تو شائد ایسی دردناک صورت پیدا نہ ہوتی۔
اس کے ساتھ ہی اگر نکاح کے فوری بعد اگر طلاقِ تفویض کا معاہدہ کیا ہوتا تو حصولِ خلع کے لئے تین سال سے زیادہ کا وقت برباد نہ ہوا ہوتا۔
لڑکا اگر باہر رہتا ہو تو اس کی مکمل معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔ لیکن جلد بازی اور ناعاقبت اندیشی نے یہ دن دکھایا۔