مضامین

قدر و قیمت میں ہے خُوں جن کا حرم سے بڑھ کر

ہمیں یقین ہے ان کی شہادت کے چرچے فرش سے عرش تک ہوں گے، "جہان دگر" میں شہدا کی بزم سجی ہوگی، ہزاروں کہکشاؤں کی جھرمٹ میں آج یہ آفتاب طلوع ہوا ہوگا، ہر سمت جشن کا سماں ہوگا، اور کہیں سے یہ صدائے بازگشت آرہی ہوگی:

تحریر : عمر عابدین

متعلقہ خبریں
اسرائیل کو سخت ترین سزا دینے كیلئے حالات سازگار ہیں:علی خامنہ ای
ایران کا افغانستان کے ساتھ بارڈر سیل کرنے کا فیصلہ
ایران سے 9 سال بعد پہلا گروپ عمرہ کیلئے روانہ
اسماعیل ہنیہ کی معاہدے سے متعلق شراط
حماس قائد اسمٰعیل ھنیہ، جنگ بندی بات چیت کے بعد مصر سے روانہ

●1: "اسماعیل ھنیہ اپنی منزل کو پاچکے”__اس طرح وہ اس خوش نصیب زمرہ میں شامل ہوگئے جن کے بارے میں قرآن مجید نے یہ مُژدَہ جانْفِزا سنایا تھا :مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ۚ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ (الأحزاب : ٢٣)

جب سے یہ اندوہناک خبر آئی ہر صاحب ایمان آب دیدیہ و افسردہ ہے اور بلاشبہ پوری امت تعزیت کی حق دار ہے۔

اقبال کے یہ اشعار زباں سے اتر نہیں رہے ہیں، ایسا لگتا ہے آج ہی کےلیے کہے گئے ہوں:

یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی

دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی

دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

● 2 : شیخ اسماعیل ہنیہ ایک رجال ساز اور تاریخ ساز فرد تھے، ان کی جد وجہد کا مرکز و محور "حماس” ہے، وہ جاتے جاتے یہ پیغام دے گئے :
ہمارے بعد ہی خون شہیداں رنگ لائے گا
یہی سرخی بنے گی زیب عنواں ہم نہیں ہوں گے

ہمیں یقین ہے ان کی شہادت کے چرچے فرش سے عرش تک ہوں گے، "جہان دگر” میں شہدا کی بزم سجی ہوگی، ہزاروں کہکشاؤں کی جھرمٹ میں آج یہ آفتاب طلوع ہوا ہوگا، ہر سمت جشن کا سماں ہوگا، اور کہیں سے یہ صدائے بازگشت آرہی ہوگی:
وہ آئے بزم میں اتنا تو فکر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

● 3 : حماس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ انہوں نے ایک بامقصد ایمانی و فولادی نسل تیار کردی، جن کی "کتاب زندگی” میں "ڈر، خوف، شکست، پستی، بزدلی، خود سپردگی اور منزل سے گمراہ کرتی حکمت ومصلحت” جیسی تعبیریں سرے سے نہیں ہیں۔ بلکہ اس نسل کی فکر سازی کا نصاب صرف قرآن و سنت اور صحابہ کی زندگی ہے۔ اسی نصاب کا انعکاس ہے کہ خاک و خون میں لت پت اپنے بچوں کی نعش پر کھڑی ماں الحمد لله الحمد لله کا نعرہ لگاتی ہے، باپ شیرینی تقسیم کرتا ہے، اور والدین خود کو تعزیت کے بجائے تہنیت کا حق دار تصور کرتے ہیں، اسی نصاب کی کرشمہ سازی ہے کہ ہزاروں شہدا جام شہادت نوش کرتے کرتے شہادت کی انگلی سے یہ آخری پیغام دیتے گئے کہ:
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

اور ان کی دوسری بڑی کامیابی یہ رہی کہ انہوں نے "ناقابل تسخیر طاقتوں” کے غرور کو خاک میں ملا دیا، دنیا کو زمزمہ توحید "اللہ اکبر” کے حقیقی معنی و مفہوم سے روشناس کرایا، خود ساختہ خداؤں اور وقت کے فرعونوں کی بخیہ ادھیڑ دی۔ پھر کمال دیکھیے کہ منافقوں کے جزیرے اور ضمیر فروشوں کے ہالے میں اہل افا کی ایک بستی "غزہ” کے نام سے قائم کر دی، جو بیک وقت کارخانہ قیادت بھی ہے اور قید خانہ بھی، شمع بھی ہے اور فرزانہ بھی۔

● 4: حماس عسکری سے زیادہ ایک نظریاتی طاقت ہے، جن کے شریانوں میں جہاد و شہادت کی آرزو رواں دواں ہے، جو جینے کے بجائے مرنے کے خواب دیکھتے ہیں، جو کمزروں کےلیے ریشم کی طرح نرم اور ظالموں کےلیے تیغ وتفنگ اور شعلہ و آہن نظر آتے ہیں، جو عالمی طاغوتی طاقتوں کا پیرہن تار تار کرنے کا ہنر جانتے ہیں، جو سمندر کا جگر چیڑنے، زمین کا سنیہ چاک کرنے اور فضاء کی نمی اور شبنم کو شعلہ و بارود میں بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں، جو جرأت و بہادری، شجاعت و وفاشعاری اور طاقت و پامردی کی مجسم تصویر ہیں۔

حماس کی نظریاتی بنیاد ان جملوں میں پوشیدہ ہے:
"اللہ ہماری منزل،
محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے اسوہ،
جہاد ہماری شاہراہ حیات
اور خدا کے راستہ میں شہادت ہماری سب سے بڑی آرزو ہے”__
ان جملوں کو پڑھیے، یہ محض الفاظ کی تک بندی نہیں بلکہ؛ ایمانی قوت و آہنی عزائم کی تخم ریزی ہے، یہ الفاظ اہل ایمان کےلیے سحر انگیزی اور اثر پذیری کا سامان فراہم کرتے ہیں اور اللہ کے دشمنوں کو دہشت و خوف کا شکار کرتے ہیں۔

● 5 : گزشتہ چند ماہ نے یہ بات صاف کردی کہ "خدائی لشکر” قوت بازو کے سہارے نہیں؛ قوت ایمانی کے بھروسے طوفانوں سے بھڑ پڑتا ہے، اور خود بھی "طوفان” بپا کرنے کی ہمت و سکت رکھتا ہے، اس کے ہاں سود و زیاں کا حساب شہادتوں کی تعداد سے نہیں؛ بلکہ معاد کی سرفرازیوں سے ہے، وہ اپنی جبین نیاز صرف خدا کے سامنے خم کرتا ہے، اور دشمنوں کا غرور و سرور خاک میں ملانے کا ہنر رکھتا ہے۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ شکستہ عمارتیں، بکھری لاشیں، ملبوں میں بدلتا شہر، فاقہ مستی، آسمان سے برستے شعلے، ہر جانب سے بلند ہوتی آہ و بکا کی آوازیں اور اپنے جگر گوشوں کے جسم کے ٹکڑے ان کے پائے استقامت کو لرزہ براندام نہیں کرسکتے ہیں۔ حال یہ ہے کہ اہل خرد اس خاک و خون میں ڈوبے شہر اور اہل جنوں کے اس کارواں کو دیکھ دیکھ کلمہ پڑھتے جاتے ہیں، اسلامی تاریخ میں عہد صحابہ کے بعد شاید پہلی بار چشم فلک نے یہ منظر دیکھا ہوگا۔

● 6: یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ "کور چشم” اور بے بصیرت لوگ ہر بات میں اپنے مطلب کی بات تلاش کرنے لگتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ بعض لوگوں کو اس "واقعہ شہادت” کا غم کم اور "جائے شہادت” کا ‘ہم’ زیادہ ہے، صبح سے بے تکی باتیں بنائی جارہی ہیں۔ انہیں اندازہ نہیں ہے کہ خفیہ ایجنسیوں کی چشم صیاد اور نگاہ عیار کہیں بھی کسی کو نشانہ بنا سکتی ہے۔

● 7: دنیا میں بیدار بخت بھی ہیں اور خفتہ بخت بھی، ہمیں یاد ہے کہ شیخ مرسی کی شہادت پر بعض بدبختوں اور خفتہ نصیبوں نے سجدہ شکر ادا کیا تھا، عین ممکن ہے اب بھی ان کا دم پراگندہ سجدہ شکر پر مجبور کرے۔ مگر یاد رکھا جائے شہید مرتے نہیں، زندہ رکھے جاتے ہیں، اور موت تو بے غیرتوں اور ایمان فروشوں کی ہوتی ہے۔ بقول اقبال :

نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمانِ غُیور
موت کیا شے ہے، فقط عالَمِ معنی کا سفر

اُن شہیدوں کی دِیَت اہلِ کلیسا سے نہ مانگ
قدر و قیمت میں ہےخُوں جن کا حرم سے بڑھ کر

a3w
a3w