تلنگانہ
ٹرینڈنگ

کیا آپ بھی کسی گروپ کے ایڈمن ہیں تو اِس نیوز کو ضرور پڑھیں، گروپوں پر پولیس کی کڑی نظر

اطلاعات ہیں کہ مختلف دیہاتوں، منڈلوں اور اضلاع میں موجود واٹس ایپ گروپوں میں پولیس عہدیداروں کو شامل ہونے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ مقامی پولیس اسٹیشنوں کے کانسٹیبلز اور انٹیلیجنس و ٹاسک فورس کے عہدیدار ان گروپوں میں شامل ہو کر فیلڈ کی معلومات فوری طور پر اعلیٰ حکام تک پہنچا رہے ہیں۔

حیدرآباد: کیا حکومت کو عوام کی رائے جاننے اور تنقیدی آوازوں پر نظر رکھنے کے لیے واٹس ایپ گروپوں تک پولیس کی رسائی کی ہدایت دی گئی ہے؟ اطلاعات کے مطابق تلنگانہ میں چیف منسٹر ریونت ریڈی اور دیگر اعلیٰ حکام کی جانب سے ہدایات ملنے کے بعد سوشل میڈیا، خاص طور پر واٹس ایپ گروپوں پر کڑی نگرانی کا عمل تیز ہو گیا ہے۔

متعلقہ خبریں
قبائلی و اقلیتی پسماندگی پر توجہ دینے حکومت کی ضرورت: پروفیسر گھنٹا چکراپانی
فنڈز تو مختص ہوئے، مگر خرچ کیوں نہیں؟ تلنگانہ میں 75 فیصد اقلیتی بہبود بجٹ غیر استعمال شدہ
سچے دل سے توبہ کرنے والوں کیلئے مغفرت کے دروازے کھل جاتے ہیں: مولانا حافظ پیر شبیر احمد
بھینسہ میں ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے مسلم ملازم پر قاتلانہ حملہ، فرقہ پرست عناصر کیخلاف سخت کارروائی کا مطالبہ
ایس ایس سی امتحانات کی تیاری: مفتی ڈاکٹر حافظ صابر پاشاہ قادری کی طلبہ کو اہم ہدایات

ذرائع کے مطابق حکومت جاننا چاہتی ہے کہ "عوام حکومت اور اس کی کارکردگی کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟ حکومت کے خلاف کون، کیا اور کہاں پوسٹ کر رہا ہے؟” ان امور پر قریبی نظر رکھنے کے لیے پولیس کے نچلی سطح کے اہلکاروں جیسے ہوم گارڈز اور کانسٹیبلز کو بھی متحرک کر دیا گیا ہے۔

اطلاعات ہیں کہ مختلف دیہاتوں، منڈلوں اور اضلاع میں موجود واٹس ایپ گروپوں میں پولیس عہدیداروں کو شامل ہونے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ مقامی پولیس اسٹیشنوں کے کانسٹیبلز اور انٹیلیجنس و ٹاسک فورس کے عہدیدار ان گروپوں میں شامل ہو کر فیلڈ کی معلومات فوری طور پر اعلیٰ حکام تک پہنچا رہے ہیں۔

کئی مقامات پر پولیس، دیہاتیوں سے پوچھ رہی ہے کہ ان کے گاؤں میں کتنے واٹس ایپ گروپ ہیں، کن کن موضوعات پر ہیں (جیسے ذات، مذہب، سیاست، نوجوان، دعوت، تفریح، خاندان کے نام وغیرہ) اور ان گروپوں کے ایڈمنز کون ہیں۔ ساتھ ہی پولیس درخواست کر رہی ہے کہ انہیں بھی ان گروپوں میں شامل کیا جائے۔

تلنگانہ کے 12,848 دیہاتوں کے ساتھ اگر ملحقہ بستیوں کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد 13 ہزار سے زائد ہو جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر گاؤں میں کم از کم 20 واٹس ایپ گروپ فعال ہیں، جن میں ویلج گروپ، ذات پات، سیاسی جماعتیں، مذہبی گروہ، فیملی گروپس، دعوتی اور تفریحی گروپس شامل ہیں۔

شہری علاقوں، منڈلوں، ضلع ہیڈکوارٹرز، بے روزگار نوجوانوں، طلبہ، صحافیوں، ڈرَنک اینڈ ڈرائیو، اور دیگر مقاصد کے لیے بنائے گئے گروپس کی تعداد کو بھی شامل کیا جائے تو ریاست بھر میں واٹس ایپ گروپوں کی تعداد 5.5 لاکھ سے تجاوز کر جاتی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کا مقصد ہے کہ کم از کم 3 لاکھ گروپس کی معلومات ہیڈ آفس کو موصول ہوں۔ اس کے لیے ممکنہ طور پر ایک خصوصی نیٹ ورک قائم کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔