مضامین

بھائیوں سے جنگ ہوتو ہار جانا چاہئے

جب بھی چنائو آتے ہیں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم ہندو ہیں ‘ مسلمان ہیں‘ سکھ ہیں یا عیسائی لیکن سچائی یہ ہے کہ ہم سب جغرافیائی اعتبار سے صرف ہندو ہی ہیں کیونکہ یہ لفظ ہندو کسی مخصوص مذہب یا کسی مخصوص عقیدے کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ یہ وادی سندھ کی تہذیب کا نمائندہ ہے۔

جھلکیاں
  • پہلے سوچالیئے اور بعد میں دیوالیئے کہنے والے مودی
  • فرقہ دشمنی کی حدوں کو پار کررہے ہیں
  • لفظ ہندو بھی ابن بطوطہ کی دین
  • ویدوں میں کہیں بھی ہندو لفظ کا ذکر نہیں

جب بھی چنائو آتے ہیں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم ہندو ہیں ‘ مسلمان ہیں‘ سکھ ہیں یا عیسائی لیکن سچائی یہ ہے کہ ہم سب جغرافیائی اعتبار سے صرف ہندو ہی ہیں کیونکہ یہ لفظ ہندو کسی مخصوص مذہب یا کسی مخصوص عقیدے کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ یہ وادی سندھ کی تہذیب کا نمائندہ ہے۔

متعلقہ خبریں
خریدے جب کوئی گڑیا‘ دوپٹا ساتھ لیتی ہے
مئیر نے شہریوں کو دسہرہ کی مبارکباد دی
کسانوں کے قرضوں کی معافی اسکیم ریونت ریڈی کا ایک انقلابی قدم، ڈاکٹر شجاعت علی کا بیان
سی اے اے اور این آر سی قانون سے لاعلمی کے سبب عوام میں خوف وہراس
الکٹورل بانڈس سے متعلق سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ: شجاعت علی صوفی

فارسی میں سندھ ‘ ہند ہوجاتا ہے اور ہند میں رہنے والے سبھی لوگوں کو چین کے سفیر فاہیان نے دوسری صدی میں ’’شنتو یا ہنتو ‘‘قرار دیا تھا جو آگے چل کر بزبان فارسی ’’ہندو‘‘ ہوا ہے۔ مراقش سے تعلق رکھنے والے سفیر ابن بطوطہنے اپنی کتاب ’الرحلۃ‘ میں بر صغیر میں رہنے والوں کو ہندو قرار دیا تھا۔

ابن بطوطہ چونکہ مراقش سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے بر صغیر ہند کو عربی میں ’الہند‘ بھی لکھا ہے۔ قدیم فارسی زبان میں ہند کو ’’ہندس ‘‘بھی کہا گیا تھا۔ یہ دراصل فارسی میں دیارئے سندھ کا نام تھا۔ اس نام کی ابتدا سنسکرت لفظ سندھو سے ہوئی تھی۔ اس فارسی لفظ کو عربی میں الہند‘ کے طور پر شامل کرلیا گیا۔

دریائے سندھ کے اطراف بسے ہوئے سبھی لوگ ہندو کہلائے گئے ۔ یونانی زبان میں ہند کو Indus کہا گیا اور انگریزی زبان نے اسی لفظ کو India کے طور پر قبول کیا۔ بہرحال اس لفظ ’’ہندو‘‘ کے مختلف دور میں مختلف معنی ٰ و مطالب لئے جاتے رہے لیکن سچائی صرف یہی ہے کہ یہ لفظ جغرافیائی پہچان کے سواء کچھ بھی نہیں۔

وجے دشمی کے موقع پرآر ایس ایس سر سنگھ چالک موہن بھاگوت نے خود یہ کہا تھا کہ ’’لفظ ہندو کسی خاص طرز عبادت ‘ زبان‘ صوبہ‘ نسل‘ یا مذہب کی نشاندہی نہیں کرتا۔ دراصل یہ ایک قدیم ثقافت اور ایک طرز حیات کی نمائندگی کرتا ہے جو کئی صدیوں سے ہمارے ساتھ چلنے والی وراثت ہے‘‘۔ اگر ان کا یہ کہنا حق بجانب ہے تو آر ایس ایس کی جانب سے پچھڑے مسلمانوں کو تحفظات دینے کی مخالفت کرنا ‘ ناقابل فہم ہے۔

عجیب اتفاق یہ ہے کہ مخصوص نظریہ کے حامل مسلم گروپس بھی مسلمانوں کو تحفظات فراہم کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے آر ایس ایس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ عقیدے سے ہٹ کر اگر آپ ہندووں اور مسلمانوں کے ثقافتی ورثے پر نظر دوڑائیں تو شادی بیاہ‘ اور اموات سے متعلق بے شمار رسمیں مشترکہ دکھائی دیتی ہیں۔

مثال کے طور پر جہیز کا لین دین‘ شادی کے دن ہندووں کی طرف سے دلہن کو منگل سوتر کاپہنانا اور مسلمانوں کی جانب سے دلہن کو لچھا پہنایا جانا ‘ مسلم دلہنوں کو سفید لباس کے بجائے سرخ یا کسی اور رنگ کا لباس پہنانا‘ نام رکھائی کا رواج ‘ مرنے والوں کے لئے دہم یا چہلم اور پھر پختہ قبروں کا بنوانا ‘ یا پھر بھجن کو قوالی یا محفل سماع کا روپ دے دینا یہ وہ رسمیں ہیں جن کا تعلق وادی سندھ کی تہذیب سے رہا ہے اور یہ وہی رسمیں ہیں جس کی وجہ سے ہماری مشترکہ تہذیب میں دراڑ پڑنا ناممکن ہے۔

کبھی کبھی سیاستدانوں کی ووٹ سمیٹنے والی تقریروں کے سبب ہمارے درمیان موقتی فاصلے ضرور نظر آتے ہیں لیکن یہ کسی موسمی بخار کی طرح 5یا7دن میں ختم ہوجاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ جداگانہ اعتقاد ‘ روایات اور طرز عبادت کے سبب کسی ’’ہندو‘‘ کی تعریف کرنا ‘ناممکن ہے۔اسی پس منظر میں 1995ء کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پی بی گجندرا گڈکر نے اپنی رولنگ میں ہند وازم کو کچھ اس طرح واضح کیا تھا۔

’’جب ہم ہندو دھرم کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی ایک ہی اوتار کو نہیں مانتا۔ یہ کسی ایک ہی خدا کی پرستش نہیں کرتا۔ وہ کسی ایک قاعدے یا اصول کو نہیں مانتا۔ وہ کسی واحد فلسفہ کو منظور نہیں کرتا اور نہ ہی کسی ایک طرز عبادت کی پیروی کرتا ہے۔ درحقیقت یہ کسی خاص مذہب یا کسی خاص نسل کی کٹر روایات کو بھی قبول نہیں کرتا۔ وسیع النظری میں ہندو ازم کو ایک طرز حیات کے سوا کچھ اور قرار نہیں دیا جاسکتا‘‘۔

جس بنیاد پر ہمیں ہندو‘ یا ہندوستانی قرار دیا گیا ہے وہ بنیاد اب ہمارے ساتھ نہیں ہے یعنی تقسیم ہند کے بعد ہندو کش کی پہاڑیاں‘ وادی سندھ یا دریائے سندھ کے تمام علاقے پاکستان کے حصہ میں چلے گئے۔ اگر آپ ایمانداری کے ساتھ ہندوستانی اور پاکستانی لوگوں کی زندگیوں کا مشاہدہ کریں تو ان کے طرز حیات میں ان کے سماجی چال چلن میں ان کی اخلاقی قدروں میں کوئی نمایاں فرق دکھائی نہیں دے گا۔

بین الاقوامی مبصرین کا کہنا ہے بے ڈھنگی ٹریفک پاکستان میںبھی دیکھی جاتی ہے‘ وہی منظر ہندوستان میں بھی ہے۔ سڑکوں کی بے تکی حالت جو وہاں پر ہے وہی حالت یہا ںپر بھی دکھائی دیتی ہے۔ ان کے کھانے کے مصالحے وہی ہیں جو ہم یہاں استعمال کررہے ہیں۔ وہ اگر ٹیکس چو رہیں تو ٹیکس کی چوریوں میں ہمارا بھی جوا ب نہیں۔ مختصر یہ اعتقاد اور ایمان کی بنیاد پر وہ مسلمان ضرور ہیں لیکن ثقافتی اعتبار سے ہندو اور مسلمانوں میں کوئی خاص فرق نہیں پایا جاتا۔

کچھ مبصرین تو یہ تک بھی کہتے ہیں کہ پاکستانی جیلو ںاور ہندوستانی جیلوں میں بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ قیدی وہاں مارے جاتے ہیں اور یہاں بھی۔ فرقہ پرستی کی تمام حدوں کو پار کردینے والے ہمارے وزیراعظم نریند ر مودی نے دلی کے ایک کالج میں طلباء سے خطاب کرتے ہوئے ایسی بڑی بات کہی تھی کہ لوگ ان کی اس بات پر جھوم اُٹھے تھے جبکہ انہوں نے یہ کہا تھا کہ ملک میں پہلے ’’سوچالئیے چاہئے اور بعد میں دیوالئیے‘‘ اور آج ہم جب ان کی تقریریں سنتے ہیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے کیونکہ اب وہ ایسی فرقہ وارانہ باتیں کہہ رہے ہیں جس سے ملک کا جذباتی اتحاد پامال ہورہا ہے۔ بہرحال جغرافیائی اعتبار سے ہم سب ہندو ہیں۔ جیت ہار تو ہوتی ہے لیکن ایک شاعر کے بقول

جیتنے کا یہ ہنر بھی آزمانا چاہئے
بھائیوں سے جنگ ہوتو ہار جانا چاہئے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی
Cell : 9705170786