مضامین

زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا، جنگ لازم ہوتو لشکر نہیں دیکھے جاتے

انسان پر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ بوڑھا ہونے کے باوجود بچوں کی طرح بات کرنے لگ جاتا ہے۔ میں بھی آج حضور اکرم ﷺ سے ننھے منوں کی طرح عرض کرتا ہوں کہ آپ ؐ طائف میں زخمی ہوجانے کے باجود نہیں روئے بلکہ اپنی اُمتیوں کی بخشش کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں گڑگڑاتے رہے اور آپ ؐ کی زبان سے بار بار یہی کلمہ نکلتا گیا کہ اُمتی اُمتی ۔

جھلکیاں
  • آپؐ نے فرمایا کسی کو کسی پر فوقیت نہیں !
  • آئمہ اپنی ذمہ داری سمجھیں!
  • باطل کو ہمیشہ شکست
  • حق کی فتح یقینی

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی
Cell : 9705170786

انسان پر ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ بوڑھا ہونے کے باوجود بچوں کی طرح بات کرنے لگ جاتا ہے۔ میں بھی آج حضور اکرم ﷺ سے ننھے منوں کی طرح عرض کرتا ہوں کہ آپ ؐ طائف میں زخمی ہوجانے کے باجود نہیں روئے بلکہ اپنی اُمتیوں کی بخشش کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور میں گڑگڑاتے رہے اور آپ ؐ کی زبان سے بار بار یہی کلمہ نکلتا گیا کہ اُمتی اُمتی ۔ یا رسول مکرمؐ جو چیز آپ اپنے لئے پسند فرماتے تھے وہی شئے آپ دوسروں کے لئے بھی پسند کرتے تھے۔

آپؐ نے ایک غلام کو موذن بنادیا جو دوسرے لوگوں کی آواز پر دوڑا دوڑا پھرتا تھا اور ایک ایسا وقت بھی آیا جب وہ منبر پر کھڑا ہوکر اذاں دیتا تو لوگ جوق درجوق اس کی آواز پر دوڑے چلے آتے۔ حضرت بلال ؓکی اذاں میں وہ اثر ہوتا کہ وہ فجر کی اذان نہ دیتے تو سحر ہی نہ ہوتی۔ آپ کی آواز کی کشش لوگوں کو نماز کی طرف راغب کردیتی۔

یا رسول اللہؐ کافروں نے آپ ؐ کے جسم کو لہولہان کردیا تھا تو یقینا حضرت فاطمہ الزہرہ ؓ آپ ؐ کے زخموں کو صاف کرتے ہوئے زار و قطار روئیں ہوںگی مگر آپؐ نہیں روئے۔ ہاں آپ ؐ اپنی اُمت کے حق میں دعا کرتے ہوئے بے انتہا روتے رہے ہیں۔ آج آپؐ اُس وقت تک سجدے میں مصروف رہے جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ ؐ کو یہ منادی نہ سنادی کہ اے محمدؐ ہم آپؐ سے راضی ہوگئے ہیں اور اب آپ ؐ بھی ہم سے راضی ہوجائیں۔

یار سول کریمؐ آج آپ کے اُمتی ایک دوسرے کا قتل و خون کررہے ہیں تو آپ کو کتنی تکلیف ہورہی ہوگی۔ آپؐ یقینا مختلف علاقوں میں آپسی قتل و خون کے واقعات پر کتنا غمزدہ ہوگئے ہوں گے؟ ساری دنیا میں آپ کی اُمت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہیں بے انتہا مصائب سے دوچار کیا جارہا ہے۔ نئے نئے ظلم ڈھائے جارہے ہیں۔ دنیا کے ہر خطہ میں اُمت کو مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن یا رسول مکرمؐ ، یا رحمۃ اللعالمین آپ کی پیشن گوئیوں کے مطابق ہمیں شکست نہیں ہوگی۔ ہم ہر بار آپؐ کی شفقت کے سبب کامیاب ہی رہیں گے۔

اُمت کے دشمن مختلف رنگوں میںمختلف جسموں میں ہمیں مٹانے یا کمزور کرنے کے لئے ہر بار پیدا ہورہے ہیں لیکن انہیں ہر سُو شکست فاش ہورہی ہے۔ یا رسول اللہؐ اگر ہم تمام واقعات کا جائزہ لیتے ہیں یا پھر ناقص عقل کے باوجود تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں ہر بار اسی حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ آقا کی ممتا ہی ہے کہ ہم ہر وقت مصیبت سے بچ کر نکل جاتے ہیں۔ ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے بس یہی کہنا پڑتا ہے کہ

کوئی سلیقہ ہے آرزو کا نہ بندگی میری بندگی ہے
یہ سب تمہارا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے
عطا کیا مجھ کو درد اُلفت کہاں تھی یہ پر خطا کی قسمت
میں اس کرم کے کہاں تھا قابل حضورؐ کی بندہ پروری ہے

ہم قسم کھا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ہم آپ ؐ کے اُمتی نہ ہوتے تو ذلت اور رسوائی ہمارا مقدر ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوتا تو یقینا یہ شافع محشر کی محبت کے سوا کیا ہے۔ آقا آپؐ کی امت آپ کی حدیثو ں پر چلنے لگی ہے۔ ہندوستان بھر میں طلاق کے واقعات میں بے حد کمی آئی ہے۔ مسجدیں پھر سے آباد ہونے لگیں ہیں۔ رمضان کے مہینہ میں غریبوں کو امیر مسلمان اچھے ڈھنگ سے نواز رہے ہیں۔ اُن کی زندگیوں میں بہار لانے کی کوششیں کررہے ہیں۔

قربانیوں کا سلسلہ بھی بڑے پیمانے پر جاری ہے۔ میرے آقا اچھائیوں کی سمت روا ہونے کے باوجود ہمارے کچھ طبقوں میں جہالت کے سبب ماردھاڑ کے بہت سارے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ حیدرآباد شہر میں پچھلے 10 سالوں کے دوران چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل و خون کے واقعات نے ہم سب کو چونکا دیا ہے۔ ایک ہی دن میں دس دس قتل کی وارداتیں معمول سا بن گئیں تھیں۔ اب یقینا ان میں بھی کمی آنے لگی ہے۔

یہ آپ کی حدیثوں کی روشنی میں افہام وتفہیم کا ہی نتیجہ ہے۔ یا حبیب خدا ؐ کیا ہی اچھا ہوتا اگر ہمارے آئمہ آپؐ کی طرح حالات حاضرہ پر روشنی ڈالتے اور بُرائیوں سے روکنے کے لئے اپنے خطاب کا استعمال کرتے؟ یا رسول اللہ ؐیہ بھی بڑی مسرت کی بات ہے کہ ہمارے نوجوان جہیز کے بغیر شادیاں کررہے ہیں لیکن یہ بھی اک سچائی ہے کہ شادی بیاہ میں اصراف اور ناچ گانا معمول بن گیا ہے۔کیا ہمارے آئمہ کو اس طرف توجہ نہیں دینی چاہئے؟

یا رسول اللہ اپنے وداعی خطبہ میں آپ ؐ نے یہ اعلان کردیا تھا کہ ہمارے اسلام میں نہ کسی عجمی کو کسی عرب پر ، نہ کالا گورے سے افضل ہے اور نہ گورا کالے سے ، ہاں ! بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے۔ اس عظیم الشان پتھر کی لکیر پر باطل کی دو کوڑی کی قیمت رکھنی والی کچھ طاقتیں مومنوں میں بھی ذات پات کی تفریق پیدا کرنے کے لئے ’’پسماندہ طبقات کا حوا‘‘ کھڑا کررہی ہے۔ یہ طاقتیں دراصل ذات پات کی گندی سوچ میں لپٹی ہوئی ہے اور شاید انہیں اس سے چھٹکارا ملنا مشکل ہے۔ یہ قوتیں اتنی گندی ہیں کہ ہندوستان کی جیلوں میں قید ہندوؤں کو بھی ان کی ذات پات کی بنیاد پر کام دیتی ہیں۔

یا رسول اللہ آپ ؐ کو جس ہند سے خوشبو مل رہی ہے‘ اُسی خطہ کے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کے جیل مینول 2016 میں خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ غیر آئینی اور غیر انسانی عمل ہے۔ یارسول اللہ یہاں کے پسماندہ قیدیوں کو جھاڑو اور صفائی کا کام دیا جاتا ہے جبکہ اعلیٰ ذات کے لوگوں کو پکوان کی ذمہ داری دی جاتی ہے جو آرٹیکل 15 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ یا رسول مکرم آپ ؐ نے تو ساری دنیا کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ مساوات ہی انسانیت ہے۔ باطل کی جو طاقتیں مساوات کو سلام نہیں کرتیں وہ اپنے ہی نظریات کی غلام بن جاتی ہیں اور نیست و نابود ہونا اُن کا مقدر بن جاتا ہے۔

یا رسول مکرم ؐ ہم آپ کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کرتے ہیں کہ وہ منافق کی یاری ‘بزدل کی دوستی‘ بے غیرت کی رشتہ داری اور کم ظرف کی دشمنی سے ہر غیرت مند انسان کو محفوظ رکھے کیونکہ ہمارے ہی صفوں میں موجود ایسے انسانوں سے ہمارا بچنا لازم ہے کیونکہ یہ منافق ’’باطل ‘‘ کی طاقتوں سے مل کر دین کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپؐ کی رحمتوں کے طفیل وہ اور ان کے حواری کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ یا رسول اللہؐ کسی بزرگ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اللہ نے جب ان سے پوچھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں تو انہوں نے جواب دیا کہ بے شک آپ ہی میرے رب ہیں تو اللہ تعالیٰ نے بڑے لاڈ سے ان سے کہا تو پھر ادھر اُدھر کیوں جارہے ہوں مجھے چھوڑ کر۔ کیا کوئی انسان مجھ سے زیادہ تمہیں محبت دے سکتا ہے۔ یا رسول اللہؐ یقینا آپ ؐ اور آپ ؐ کے رب ہمارے ساتھ ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں چھو نہیں سکتی۔ کسی شاعر نے ہمیں مزید طاقت دینے کے لئے کیا خوب کہا ہے۔

زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا
جنگ لازم ہوتو لشکر نہیں دیکھے جاتے