مذہب

اوقاف کی اہمیت،اس کی حفاظت وصیانت

اسلامی احکام وقوانین میں وقف کی بڑی اہمیت ہے گو کہ یہ لفظ صراحت کے ساتھ قرآن پاک میں مذکور نہیں ہے لیکن صدقہ وخیرات، نیکی وبھلائی، باقیات صالحات، ایثار و قربانی، احسان وانفاق، قرض حسنہ سے تعاون وغیرہ جیسی تعلیمات اوران جیسے کاموں میں سبقت کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔

حکومت کے پیش نظروقف قانون میں مجوزہ ترامیم کے تناظر میں

مفتی حافظ سیدصادق محی الدین فہیمؔ
Cell No. 9848862786

اسلامی احکام وقوانین میں وقف کی بڑی اہمیت ہے گو کہ یہ لفظ صراحت کے ساتھ قرآن پاک میں مذکور نہیں ہے لیکن صدقہ وخیرات، نیکی وبھلائی، باقیات صالحات، ایثار و قربانی، احسان وانفاق، قرض حسنہ سے تعاون وغیرہ جیسی تعلیمات اوران جیسے کاموں میں سبقت کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ ’’پس نیکیوں کی طرف سبقت کرو‘‘ (البقرہ: ۱۴۸) اللہ سبحانہ نے اپنی حکمت بالغہ سے اس دنیا میں امتحان کی غرض سے بہت سوں کومال ودولت سے نوازا ہے اوربہت سے غریب ومحتاج بنائےہیں،

دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں،ایک کے بغیر دوسرے کا کام بآسانی تکمیل نہیں پاسکتا،اسی سےنظام کائنات بحسن خوبی چل رہا ہے، ’’ہم نے ان کی روزی کوان کے درمیان دنیوی زندگی میں تقسیم کیاہےاورایک دوسرے پر درجہ بلند کئے ہیں تاکہ ایک دوسرے سے خدمت لے(اور عالم کانظم و انتظام قائم رہے)‘‘ (زخرف: ۳۲) نیکی وبھلائی، ہمدردی وخیرخواہی دو طرح سے کی جاسکتی ہے ،ایک وقتی طورپرمددکرکے یا ایسے کار خیر انجام دےکر جس کا نفع ہمیشہ انسانوں کو پہنچتارہے،پہلی صورت وقتی مدد کے طور پر راہ حق میں انفاق کی ہے جس سے محتاجوں کی بروقت مددہوجاتی ہےچنانچہ مدینہ منورہ میں کوئی محتاج وتنگدست آجاتاتوآپ ﷺ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کواس کی مدد وتعاون کی ترغیب فرماتے۔

دوسرے دائمی نفع یعنی کوئی قیمتی مال ومتاع جیسے جائیدادیں، باغات، پانی کے چشمے، مدارس ومکاتب اور شفاخانوں کا قیام، ان کے انتظام وانصرام کامستقل حل، یتیموں، بیوائوں کی مدد، نادار طلبہ وطالبات کی مالی اعانت ،مریضوں کی تیمارداری وغیرہ جیسے کاموں کیلئےوقتی مددکے ساتھ دائمی حل کی غرض سے جائیدادوں کے وقف کرنے کی ہے، صدراسلام ہی سے ہر دو کا تصور ملتاہے۔یہ دونوں صورتیں ذخیرہ آخرت بنتی ہیں ’’اور جو نیکی تم اپنے لئے بھیجوگے اسے اللہ سبحانہ کے ہاں بہترسے بہتر اور اجروثواب میں بہت زیادہ پائوگے‘‘ (مزمل؍۲۰)

وقتی مددکے ساتھ دائمی مدد وتعاون کی غرض سے جائیداوں کا وقف بھی ثابت ہے،چنانچہ حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ بڑے صاحب ثروت تھے ،ان کواپنی املاک میں ’’بیرحاء‘‘ بہت محبوب تھا اور یہ مسجد نبوی کے روبرو تھا، سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اکثر وہاں تشریف لاتے اوراس چشمے کا پانی بطیب خاطرنوش فرماتے،جب آل عمران آیت: ۹۲ نازل ہوئی تو ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اورعرض کیا یا رسول اللہ! اللہ سبحانہ کا ارشاد نازل ہواہے کہ’’ تم ہرگزنیکی کو نہیں پہنچ سکتے جب تک تم اپنی محبوب وپسندیدہ چیزوں کوراہ حق میں خرچ نہ کریں‘‘، اور عرض کیا میرے سارے اثاثوں میں ’’بیرحاء باغ‘‘ مجھے زیادہ عزیزو محبوب ہے،میں اس کو اللہ کے لئے صدقہ کرنا چاہتا ہوں اس امید کے ساتھ کہ وہ میرے لئے آخرت میںنیکیوں کا ذخیرہ بنے،آپ اسے قبول فرما لیجئے جس میں اللہ سبحانہ کی رضا ہواس میںخرچ فرمائیے ۔

آپ ﷺ نے خوشنودی کا اظہار فرمایا اورفرمایا وہ توبہت نفع بخش ہے بہترہوگا کہ تم اس کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو چنانچہ انہوں نے تعمیل حکم میں اسے اپنے چچازادرشتہ داروں میں تقسیم کردیا (مسنداحمد: ۲۵؍۳۱) اس سے یہ بات ثابت ہے کہ خیرکے کاموں میں تعاون کرنا ہو تو والدین اور رشتہ دار مقدم ہیں چنانچہ ارشاد باری ہے ’’آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں، آپ فرما دیجئے اپنے مال سے جوکچھ تم خرچ کرو (درجہ بدرجہ اس کے مستحق )تمہارے والدین اور قریبی رشتہ دار ہیں اور یتامیٰ ومساکین ہیں اور مسافر ہیں اور جو کچھ تم خیر کے کام انجام دوگے بلاشبہ اللہ سبحانہ اسے خوب جانتے ہیں‘‘ (البقرہ: ۲۱۵)

راہ حق میں خرچ کی بات کی جائے تو دوسوال اس سے متعلق ہوجاتے ہیں،ایک توکیا خرچ کریں، دوسرے کہاں خرچ کریں،ظاہرہے پہلے سوال کا جواب ضمنا آگیا ہے یعنی ’’مِنْ خَيْرٍ‘‘سے مرادراہ حق میں خرچ کئے جانے والا مال حلال و طیب اور پاکیزہ ہو۔ دوسرے سوال کا جواب تفصیلا دیا گیاہے یعنی تمہارے مال کے اولین مستحق والدین ہیں پھریکے بعددیگرے عزیز و اقارب ہیںان کے بعد یتامیٰ،مساکین اورمسافرین مستحق ہیں، اس لئے آپ ﷺ نے حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کوان کے باغ بیرحاء کوان کے چچازادرشتہ داروں پر خرچ کرنے کی ترغیب فرمائی۔ان رشتہ داروں کے علاوہ کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جواپنی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے مانگتے ہیں،

قرآن پاک میں ’’لِّلسَّائِلِ‘‘ سے مانگنے والے مرادہیں ان میں کچھ وہ بھی ہوتے ہیں جو مستحق ہونے کے باوجود تعفف (سوال سے بچنے) کی وجہ کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتےیا کوئی صاحب ثروت رہاہولیکن ناگہانی آفات ارضی وسماوی کی وجہ مصائب وآلام کا شکارہوگیا ہو، ہر دو کو ’’الْمَحْرُومِ‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے، مسلمانوں کے مال میں ان سب کا حق رکھا گیا ہے: وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (الذاریات: ۱۹) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حاضرخدمت ہوئے اورعرض کیا یا رسول اللہ!مجھے خیبر کی ایک زمین ملی ہے جوبہت عمدہ ہےمعروضہ یہ ہے کہ میں اس کا کیا کروں؟

آپ ﷺ نے فرمایا اگر تم چاہوتو اس کی اصل کو روک لو اور اس (کے نفع) کو صدقہ کردو،تعمیل حکم میں انہوں نے ایسا ہی کیاکہ وہ آئندہ نہ فروخت ہوسکے گی نہ ہبہ کی جائے گی اورنہ اس میں وراثت جاری ہوگی۔ (سنن ابی داود: ۸؍۷۴) کتب فقہ وفتاوی میںبھی اس کی صراحت مذکور ہے۔ أن المراد أنه لم يبق على ملك الواقف ولا انتقل إلى ملك غيره بل صار على حكم ملك الله تعالى الذي لا ملك فيه لأحد سواه وإلا فالكل ملك الله تعالى۔۔ لا يباع ولا يورث ولا يوهب (رد المحتار۴؍۳۳۹)۔

بیر رومہ خریدنے اوراس کو وقف کرنے کے بارے میں سیدنامحمدرسول اللہ ﷺ کی خواہش پر خلق خداکی نفع رسانی کیلئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے بیر رومہ کوخریدا اور وقف فرمایا (مسنداحمد: ۱؍۴۸۶) اس کے علاوہ وقف کے سلسلہ میںاور بھی شواہد و روایات احادیث پاک میں ملتے ہیں،الغرض نصوصِ قرآنی کے اشارات اور احادیث پاک کی صریح روایات سے وقف کی اہمیت وفضیلت ثابت ہے۔

بحیثیت مجموعی انسانی سماج کی فلاح وبہبودکےلئے وقف کی اہمیت کے پیش نظرہردورمیں مختلف مقاصدکے تحت اصحاب خیرنے اپنی جائیدادیں وقف کی ہیں،دنیا بھرمیں اس کے نظائرملتے ہیں،ایک سروےکے مطابق بھارت میں بکثرت جائیدادیں نیک مقاصدکےلئے موقوف ہیں،اس وقت مسلمانوں کی آبادی حکومتی رائے شماری کی بنیادپر ۱۷؍ کروڑ سے زائدبتائی جارہی ہےلیکن گہری نظررکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ مسلمان لگ بھگ ۲۵؍کروڑکے قریب ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بھارت میں موجوداوقافی جائیدادوں کی صحیح نگہداشت ہو،ان کی نگرانی اورحفاظت وصیانت کا نظم ایساہو جیسے کوئی دردوفکرکےساتھ اپنی شخصی جائیدادوں کی کرتاہےان سے ہونے والی آمدنی صحیح مصارف میں خرچ ہوتوبھارت میں مسلمانوں کی غربت کا بڑی حد تک مداوا ہوسکے گااور کوئی مسلمان دردرکی ٹھوکریں کھانے پر مجبور نہیں ہو گا،لیکن افسوس اوقافی جائیدادوں کے حوالہ سے جیسے قابل رشک کام انجام پائے جانے چاہیے تھے نہیں پاسکے ہیں، اس کی کئی وجوہات ہیں ان میں بڑی وجہ اوقافی جائیدادوں پربڑے پیمانہ پرحکومتی اداروں کا قبضہ ہے۔

سیاسی قائدین کیوں پیچھے رہتے وہ بھی بہتی گنگامیں ہاتھ دھونے کے مترادف اوقافی جائیدادوں کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہتے ہیں،کچھ اوقافی جائیدادیں ایسی بھی ہیں جن کے نگران ومتولیان ہیں ،اکثرکے ہاں دین ودیانت کے تقاضے مفقود ہیں۔ الغرض ’’مال مفت دل بے رحم‘‘کے مصداق ہر کوئی موقوفہ جائیدادوں کومال غنیمت جان کراپنی دو روزہ زندگی کیلئے عیش وتنعم کا سامان کررہا ہے، خوف خدا وخوف آخرت سے بے نیازی اورروزحشربارگاہ ایزدی میں جوابدہی کے استحضارمیں کمی کی وجہ مقاصدوقف پس پشت ڈال دئیے گئے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ ہرآنے والادن زبان حال سے اوقافی جائیدادوں کی تباہی کی داستان غم سنا رہا ہے۔

نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان تعلیم میں سب سے زیادہ پچھڑے طبقہ میں شامل ہوگئے ہیں،وہ جوکبھی علم وتحقیق میں بھی امامت وقیادت کے منصب پرفائزتھے اب جہل کی تاریک وادیوں میں بھٹک رہے ہیں۔ غریب و نادار علاج ومعالجہ کیلئے پریشان ہیں،سرکاری دواخانوں کا نظم نہایت قابل افسوس ہے، خانگی دواخانوں تک رسائی ان کے لئے آسان نہیں،اس تناظرمیں اوقافی جائیدادوں کا تحفظ ان مقاصدمیں بڑی حد تک مددگارثابت ہوسکتاہے،روزگارکی جہاں تک بات ہے اس وقت ایک سروے کے مطابق بھارت انتہائی غریب ملک ہے۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا ۲۹؍ستمبر۲۰۲۱ء کے مطابق ہندوستان کا بیرونی قرض اختتامی مالی سال مارچ ۲۰۲۱ء میں ۱.۲فیصدبڑھ کر ۵۷۰؍ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، وزارت فینانس اقتصادی امور کے شعبہ کی جانب سے بیرونی قرضوں سے متعلق جاری ایک رپورٹ میں کہاگیاہے کہ مارچ ۲۰۲۰ء میں یہ قرض ۴.۵۵۸؍ارب ڈالرتھا ۔

مونیٹائزیشن کے نام سے قومی اثاثہ جات کی فروخت وہ بھی ان کوجن کوحکمران چاہتے ہیں اور جن سے ایک دوسرے کے منافع وابستہ ہیں، باقی رہاملک کے شہری وہ تو اب صرف وعدوںہی سے خوش ہیں،انتہاء پسندانسانیت دشمن عناصر کی نفرت بھری کارستانیاں اورکھلے چھپے حکمرانوں کی سرپرستی ملک کے غریب اکثریتی طبقہ کو آکسیجن فراہم کررہی ہیںاوروہ اسی میں مگن ہیں،ملک کی بدحالی پران کی کوئی نظر نہیں ہے۔تعلیم،صحت اورروزگارکی حکومتیں ذمہ دار ہوا کرتی ہیں، پہلے کبھی یہ فرائض وذمہ داریاں حکومتی سطح پر باحسن الوجوہ انجام پایا کرتی تھیں،اس کی مثال زرین مسلم دور حکمرانی کی ہے ،اس کے حکمراںواقعی اس کواپنا اہم فریضہ جان کرحتی المقدوررعایا کی خوشحالی کوہرآن پیش نظررکھاکرتے تھے ، اس کی تازہ مثال آصفجاہی دورحکومت ہے،ملک کی ترقی اوررعایا کی فلاح وبہبود کے عظیم وبے مثال کارنامے اس دورحکومت میں انجام پائے ہیں ،تعلیم ،صحت وروزگارکے اعلی مواقع بلالحاظ مذہب وملت ہرایک کے دسترس میں تھے۔

اب موجودہ جمہوری حکومتیں رعایا کووہ سہولتیں بہم نہیں پہونچا پارہی ہیں جن کی ان کوشدید ضرورت ہے،اس صورتحال میں خاص طورپرمسلم اقلیت کی فلاح وبہبودمیں اوقافی ادارے اہم رول اداکرسکتے ہیں۔ان عظیم مقاصدکے لئے بھارت کی تمام ریاستوں میں اوقافی ادارے قائم ہیںچونکہ اوقافی جائیدادوں کی حفاظت وصیانت اوراس کی دیکھ بھال جیسی مسلمان کرسکتے ہیں دوسرے نہیں کرسکتےاس لئےان کے نگران بھی مسلمان مقررکئے گئے تاکہ وقافی جائیدادوں کا تحفظ ہو۔سوال یہ ہے کہ مسلمان ہی جب اوقاف کے نگران بنائے گئے ہیں توپھراوقافی ادارے زبوں حالی کا شکارکیوں ہیں ،کیوںاوقافی قیمتی املاک پرناجائزقابضین متصرف ہیں اوراس کا نفع جیسے مسلم قوم کو پہنچناچاہیے کیوں نہیں پہنچ پارہا ہے اور کیوں مسلمان سطح غربت سے نیچے زندگی گزاررہے ہیں؟

ضرورت اس بات کی ہے کہ وقف بورڈ کی ذمہ داری ایسے افراد کو سونپی جائے جوخداترس،نیک نام اورجذبہ خدمت سے سرشارہوں،خائن وبدیانت نہ ہوں۔اکثریہ شکایت عام ہے کہ وقف بورڈ کے بعض ملازمین اوقاف کی جائیدادوں کو نقصان پہونچانے کے ذمہ دارہیں،یہ بات کس حد تک درست ہے اس کا جائزہ لیا جاناچاہیے ،یہ بات درست ہو تو اس کی اصلاح کے اقدامات کئے جانے چاہیے۔الغرض ہونا تو یہی چاہیے کہ خدمت خلق کے عظیم جذبہ سے صاحبان ثروت نے جوجائیدادیں وقف کی ہیں منشاء وقف کے مطابق ان کے منافع مسلمانوں کوپہنچیں،قانون اسلامی کی روسے خائن وبددیانت افراداوقاف کی نگرانی وتولیت سے معزول کردئیے جانے کے لائق ہیں: وفي الجواهر القيم إذا لم يراع الوقف يعزله القاضي (ردالمحتار: ۴؍۳۸۰)

’’پی آئی بی دہلی ۱۸؍ جولائی ۲۰۱۸ءکے مطابق اقلیتی امور کے مرکزی وزیرمختارعباس نقوی نے لوک سبھا میں ایک تحریری سوال کے جواب میں بتایاتھا کہ ترمیم شدہ وقف قانون ۱۹۹۵ءکی دفعہ ۳۲؍ کی شقوں کی مطابق تمام تر اوقاف کی عام نگرانی ایک ریاست میں ریاستی وقف بورڈ کو حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ وقف قانون۱۹۹۵ء میں کی گئی ترمیم کے ذریعہ اس میں جو بڑی دفعات کا اضافہ کیا گیا ہے اس کے تحت ریاست اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے وقف بورڈوں کو وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضوں کے معاملوں سے نپٹنے کے لئے کافی اختیارات دیئے گئے ہیں۔اس کے ساتھ ہی ناجائزقابضین کی تشریح بھی کی گئی ہے۔ مقررہ مدت میں وقف جائیدادوں کاسروے مکمل کرانے اور سروے کمشنروں کو مقرر کرنے کے لئے ریاستی حکومتوں کو اختیار دیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ اس کے ذریعہ ریاستی وقف بورڈ کی اجازت کے بغیر کسی بھی وقف جائیداد کی حیثیت کوختم کرنے پر سخت جیل کی سزا کی بھی گنجائش رکھی گئی ہے۔ اسے غیر ضمانتی جرم کے زمرہ میں رکھا گیا ہے۔ ایسی جائیدادوں میں رہنے والے کرائے داروں کے تخلیہ سے جڑے تنازعات کی شنوائی کے لئے زیادہ اختیارکے ساتھ تین رکنی ٹر یبونل کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔ ریاستی حکومتوں اور ریاستی وقف بورڈوں کے ذریعہ وقف قانون کی مختلف دفعات کی تعمیل پر مرکزی حکومت بھی وقتاً فوقتاًنظر رکھتی ہے‘‘،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ بظاہرحکومت کے قوانین بھی وقف کی حفاظت کے حق میں ہیں،اب سوال یہ ہے کہ اس کے باوجود بہت سی اوقافی جائیدادیں حکومت کے قبضہ میں کیوں ہیں اور کیوں وقف بورڈس اوقافی جائیدادوں کے تحفظ میں ناکام ہیںلیکن ’’ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور‘‘ کے مصداق کہا کچھ جاتااور کیا کچھ جاتاہے۔

چنانچہ اب وقف بورڈ کے کسی بھی جائیداد کواپنا اثاثہ قراردینے کے اختیارات کو ختم کرنے وقف قانون میں ترامیم حکومت کے پیش نظر ہےجس سےوقف بورڈ کے اختیارات محدود ہوجائیں گے،امکان ہے کہ چالیس ایسی ترامیم پر مبنی ایک بل کی آئندہ ہفتہ پارلمنٹ میں پیش کیا جائے گا جس سے وقف جائیدادوں کے تحفظ پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ذرائع کے مطابق وقف بورڈس ۹؍لاکھ ۴۰ ؍ہزار ایکڑ اراضی پر محیط املاک کے نگرانی کرتے ہیں ۲۰۱۳ء میں یوپی اے حکومت نے حقیقی وقف قانون ۱۹۹۵ء میں ترامیمات کے ذریعہ ان وقف بورڈ س کے اختیارات کو مستحکم کیا تھا لیکن موجودہ ترامیم سے اس پر کاری ضرب پڑسکتی ہے۔

اس پس منظر میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنی ناراضگی جتائی ہے اور کہاہے کہ وقف ایکٹ ۲۰۱۳ء کی ایسی تبدیلی جس سے وقف جائیدادوں کی حیثیت ونوعیت بدل جائے یا اس پر قبضہ جمالینا حکومت یا کسی فرد کے لئے آسان ہوجائے ہرگز قابل قبول نہیں، اس کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ مصدقہ اطلاعات کے مطابق حکومت ہند وقف ایکٹ ۲۰۱۳ء میں تقریبا چالیس ترمیمات کے ذریعہ وقف جائیدادوں کی حیثیت اور نوعیت بدل دینا چاہتی ہے تاکہ اس پر قبضہ کرلینا آسان ہوجائے۔یہ بھی کہا کہ وقف ایکٹ اور اوقافی جائیدادوں کو دستور ہند اور شریعت اپلیکیشن ایکٹ ۱۹۳۷ تحفظ فراہم کرتاہےاس لئے حکومت ہند اس قانون میں کوئی ایسی ترمیم نہیں کرسکتی جس سے ان جائیدادوں کے نوعیت اور حیثیت ہی تبدیل ہوجائے۔ سابقہ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے سخت قوانین کے باوجود اوقافی جائیدادوں کا ایک بہت بڑا حصہ حکومت کے زیر تصرف ہے اور کئی ایک جائیدادیں عوام الناس کے قبضہ میں ہیں جن کو حاصل کرنا آسمان سے تارے توڑکر لانے کے مترادف ہے۔

چنانچہ درگاہ حسین شاہ ولی رحمہ اللہ کی موقوفہ اراضی سے متعلق بعض تجزیہ نگاروں کی رائے یہ ہے کہ اس کی تخمینی لاگت اس وقت ایک لاکھ کروڑروپئے ہے،اس اراضی کے بارے میں اس بات کی بھی شہرت ہے کہ وقف ٹر یبونل ہائی کورٹ کی سنگل وڈبل بنچ اورسپریم کورٹ کی سنگل بنچ میں وقف بورڈ کو کامیابی حاصل ہوئی لیکن افسوس سپریم کورٹ کی ڈبل بنچ میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔ ایسا کیوں ہواہے اس پربھی سنجیدہ غوروفکر کی ضرورت ہے اور مقاصد وقف کے مطابق اس کی بازیابی کے لئے سپریم کورٹ میںنہ صرف درخواست نظرثانی (Review Petition) دائر کرنا چاہیے بلکہ قابل ترین وکلاء کی خدمات حاصل کرتے ہوئےاس مقدمہ کی دل وجان سے پیروی کرناچاہیے ۔

بہرحال مسلسل جدوجہدکی ضرورت ہے، اوقافی جائیدادوں کی حفاظت وصیانت میں ناکامی کا صرف یہ ایک مسئلہ نہیں ہے بلکہ اکثر وبیشتراوقافی جائیدادوں کا یہی حال ہے، اب مجوزہ بل کی منظوری سے من چاہی ترامیم کرلی جائیں گی تو شدید اندیشہ ہے بچی کچی اوقافی جائیدادیں بھی دائو پر لگ جائیں، یہ بھی کہ آئندہ اوقاف بورڈس کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔اس تناظر میں حکومت کو چاہیے کہ سابقہ اوقاف تحفظ قوانین میں کوئی چھیڑ چھاڑ کرنے کے بجائے خود بھی اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کا فرض پورا کرے اور ناجائز قابضین کی دستبرد سےاس کو محفوظ رکھنے کو یقینی بنائے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اوراوقاف بورڈس کے ذمہ دار اوقافی جائیدادوں کے تحفظ میں سنجیدہ ہوں اوران سے کوئی کوتاہی ہورہی ہو تو ملک کے سیاسی ومذہبی قائدین آگے آئیں اوراس کی نشاندہی کریں اس کے باوجود کماحقہ حفاظت کافرض پورانہ ہورہاہوتواپنے اختلافات ومفادات کوپس پشت ڈال کر فکرودردکے ساتھ عدالتوں سے رجوع ہوں عوام الناس کا بھی فرض ہے کہ جب تک اوقافی جائیدادیں ناجائزقابضین ومتصرفین سے حاصل نہ کرلی جائیںان کے دست وبازوبنے رہیں، دعاءہے اللہ سبحانہ اوقافی جائیدادوں کی حفاظت فرمائے اورناجائزقابضین کوبھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ خوف خداوخوف آخرت کوپیش نظررکھ کران پراپناناجائز قبضہ و تصرف ختم کرکے وقف بورڈ س کے حوالے کریںاوروقف بورڈس کا بھی فرض ہے کہ اوقاف کی حفاظت وصیانت اپنا دیانتدارانہ کردار ادا کریں اسی میں ان کے لئے زندگی کا چین وسکون بھی ہے اورآخرت کی بازپرس سے حفاظت بھی۔

الغرض اوقافی جائیدادوں کا تحفظ، منشاء واقف کے مطابق مقاصد وقف کی تکمیل ملت اسلامیہ کے خورد وکلاں ہرایک کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
٭٭٭

a3w
a3w