مذہب

اپنے غصے کے شر سے اپنے بچوں کو بچائیں!

مختلف تحقیقات سے غصہ کے جو مہلک نتائج سامنے آئے ہیں، ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس پر کنٹرول حاصل کرنا والدین اور بچوں کی صحت اور ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔

ام مسفرہ مبشرہ کھوت

کیا کبھی ایسا ہوا کہ بچے کی چھوٹی غلطی پر آپ کو بہت زیادہ غصہ آیا ہو؟

کیا کبھی اپنے بچے کو ڈانٹنے یا مارنے کے بعد آپ کو پشیمانی کا احساس ہوا ہے؟

تصور کریں کہ بچے کے ہاتھ سے گلاس گر کر ٹوٹ جائے اور وہ آپ کے سامنے ڈرا سہما کھڑا ہو، اور آپ اسے سزا دینے کے بجائے پیار سے سمجھائیں، تو اس بچے کے دل کی کیفیت کیا ہوگی!! بہت سے والدین اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر بھی بہت زیادہ غصہ کرتے ہیں۔ وہ یہ نہیں طے کرپاتے کہ کس غلطی پر کس قدر ناراضی کا اظہار کرنا چاہیے۔ والدین کے غصہ کرنے کے بچوں کی شخصیت اتنے زیادہ مضر اثرات ثابت ہوچکے ہیں، کہ غصے کی خرابی سے چھٹکارا پانے کی فکر تمام والدین کو کرنی چاہیے۔ اس مضمون میں ہم اس سلسلے میں جدید تحقیقات کی روشنی میں گفتگو کریں گے۔

والدین کو سب سے پہلے اس سوال کا جواب حاصل کرنا چاہیے کہ انھیں غصہ کب آتا ہے۔ والدین تھوڑا غور کرکے اس سوال کا جواب آسانی سے دے سکتے ہیں۔

ان کے حسب ذیل جوابات ہوسکتے ہیں:

جب بچے ان کی بات نہیں سنتے ہیں۔ بدتمیزی کرتے ہیں۔ نافرمانی کرتے ہیں۔ شکایتیں کرتے ہیں۔ چیختے چلاتے اور بات بات پر روتے ہیں۔ اپنی چیزوں کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔ طے شدہ روٹین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ آپس میں لڑائی کرتے ہیں۔ ہوم ورک نہیں کرتے ہیں۔ متوازن صحت بخش غذا پر غیر صحت مند غذا کو ترجیح دیتے ہیں۔ برے بچوں کا ساتھ پکڑ لیتے ہیں۔

الغرض والدین کے پاس طویل فہرست بن سکتی ہے اس سوال کے جواب میں کہ انھیں غصّہ کب آتا ہے۔ ناپسندیدہ کاموں پر ناراض ہونا فطری بات ہے۔ اور یہ کسی درجے میں قابل قبول بھی مانا جاسکتا ہے، اگر اس ناراضی کا حکیمانہ اظہار ہو جس کی وجہ سے بچوں میں بری عادتوں سے نفرت پیدا ہو اور ان کے اندر اعلی اخلاق کی پرورش ہو۔ لیکن جب ناراضی غصے کی شکل اختیار کرلے، غصّہ بھی ایسا کہ اس پر قابو نہ ہو اور والدین بچوں کی چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی سختی سے پیش آتے ہوں، غصّہ اس قدر بڑھ جاتا ہو کہ جسمانی سزا تک نوبت پہنچ جائے، بچوں سے ایسے جملے کہ دیں جن سے ان کے جذبات مجروح ہوجائیں، تو پھر والدین کو اسے اپنا سنگین مسئلہ سمجھ کر اپنے مزاج کی فوری اصلاح کرنی ہوگی۔

والدین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ غیر ضروری سختی اور بے جا غصہ کا بچوں کی شخصیت، ان کی آئندہ کی زندگی اور ان کی ذہنی و جسمانی صحت پر کیا اثر ہوتا ہے۔

(الف)منفی احساسات کا پنپنا

چھوٹے بچوں کو صحیح اور غلط کی تمیز نہیں ہوتی ہے۔ ان کے لیے گھر ایک ایسی دنیا ہے جہاں وہ اپنی من مانی کرتے ہوئے ہزاروں غلطیاں کرسکتے ہیں۔ یہاں وہ پیر پھیلا کر بیٹھ سکتے ہیں، کھلونے توڑ سکتے ہیں، کپڑوں کی تہہ کھول سکتے ہیں، ان کے ہاتھوں کوئی بھی سیال چیز جیسے پانی، دودھ، شربت گرسکتا ہے وغیرہ۔ گھر سے باہر جب ان سے ایسی غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں تو قدرتی طور پر وہ ڈر جاتے ہیں لیکن گھر میں والدین کے سامنے وہ تحفظ محسوس کرتے ہیں۔ والدین اپنے نونہالوں کے لیے محبت و شفقت کا پیکر ہوتے ہیں لیکن بعض دفعہ غصّہ اور چڑ چڑے پن کی عادت کی وجہ سے والدین بچوں پر بات بات پر غصہ ہوتے رہتے ہیں۔ بعض دفعہ ان کی اپنی مصروفیات اور ترجیحات غصّہ کا سبب بنتی ہیں۔ کبھی وہ ذہنی طور پر ڈسٹرب ہوتے ہیں، کبھی انھیں اپنی کسی ناکامی پر جھنجلاہٹ ہوتی ہیں۔ بہرکیف، ایسے کئی سارے منفی رجحانات ہیں جو منفی رویہ، یعنی ’غصہ‘ کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ بارہا غصیلے ردعمل کی وجہ سے بچوں کے تحفظ کے احساسات پر خوف کا غلبہ چھانے لگتا ہے۔ وہ اتنا سہم سہم کر رہتے ہیں کہ اپنی غلطی کی خبر والدین تک نہیں پہنچنے دینا چاہتے۔ ایسے بچے چھپانا سیکھ جاتے ہیں اور بڑھتی عمر کے ساتھ بہت سے معاملات والدین کے سامنے کھل کر پیش نہیں کرپاتے۔ ایسے بچوں کے غلط صحبت میں پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ بچے منفی رویوں اور بے جا روک ٹوک کے مہیب سائے میں پلتے ہیں اور اس لیے ان کی شخصیت منفی جذبات اور رجحانات سے گھری رہتی ہے۔ غصّہ اور ملامت کرتے کرتے والدین کو اس کی اتنی عادت ہوجاتی ہے کہ بسا اوقات وہ بچوں کی خوبیوں اور اچھے کاموں کو بھی نہیں سراہتے۔ جب کسی گھر میں منفیت(negative energy یا negativity)کی فضا قائم ہوجاتی ہے تو وہاں بچوں کی اچھی، صحت مند اور صحیح تربیت ہونا نہایت دشوار گزار عمل ہوجاتا ہے۔

(ب) خودی کا مجروح ہوجانا

شجاعت مومن کا زیور ہے۔ خودی اور اعتماد شخصیت کے ایسے اہم پہلو ہیں جن پر اگر بچپن میں دھند چھا جاتی ہے تو بعد میں شخصیت کے ارتقا میں دشواری پیش آتی ہے۔ بچپن سے ہی ان اعلی صفات سے آراستہ کرنا اور ان پر زنگ لگنے سے بچانے کی کوشش کرنا لازم ہے۔

والدین بچوں پر چیختے ہوں، دوسرے افراد کے سامنے ڈانٹتے ہوں، مہمانوں کے سامنے آنکھیں نکالتے ہوں، اسکول جاکر میٹنگ میں پٹائی کا اعلان کرتے ہوں، خاندان کے دوسرے بچوں کے سامنے کوتاہیوں کا تذکرہ کرتے ہوں ایسے تمام رویوں سے بچوں کا دل مجروح ہوتا ہے۔ والدین کے غصیلے رویوں سے بچوں میں احساس کمتری پنپنے لگتا ہے۔ دوسروں کے سامنے ذلت آمیز سلوک کے نتیجے میں وہ اپنے اندر جو تکلیف محسوس کرتے ہیں وہ ان کے ذہن میں کسی ڈراؤنے خواب کی طرح لمبے عرصے تک بسی رہتی ہے۔ ایسے بچے دوسروں کے سامنے خود کو پیش کرنے سے کتراتے ہیں اور پھر وہ رشتوں کو نباہنے اور سنبھالنے کا سلیقہ بھی نہیں سیکھ پاتے۔ وہ نہ گھر میں پراعتماد ہوتے ہیں اور نہ باہر کی دنیا میں خوددار بن پاتے ہیں۔

(ج) اخلاق و کردار پر خراب اثر

جس طرح بچہ والدین سے اچھائیاں سیکھتا ہے اسی طرح والدین کو دیکھ کر برائیاں بھی اپناتا ہے۔ والدین غصہ ور ہوں گے تو بچہ بھی ان کا آئینہ ہوگا۔ آج وہ بچے پر بات بے بات پر غصہ ہوتے ہیں، کل وہ بھی بدتمیزی کرے گا اور اپنے سے جڑے تمام رشتوں پر رعب جمانا چاہے گا۔ وہ یہ نہیں سوچے گا کہ کس کی کتنی دل آزاری ہوئی ہے نا ہی وہ معافی مانگنا جانے گا۔ ایسے بچے آگے چل کر انا پرست نوجوان بنتے ہیں۔ یہ بے حد ضدی بن جاتے ہیں جنھیں اپنی من پسند اشیا فوری طور پر حاصل کرنی ہوتی ہیں اور دھیرے دھیرے خود غرضی اور مطلبی پن ان کی شناخت بن جاتا ہے۔ چوں کہ اسلام‌ میں اچھائی سکھانے کا ثواب ہے اور برائی پھیلانے اور سکھانے کا گناہ ہے اس لیے بحیثیت مسلمان والدین ہمیں اپنی تربیتی کارروائیوں کے تئیں بہت محتاط رہنا ہوگا۔ مبادا ہماری کارروائیاں برائیوں کے پنپنے کا سبب بن جائیں۔

(د) جسمانی اور ذہنی صحت کا متاثر ہونا

حد سے زیادہ غصہ ہونا غیر فطری ہے اس لیے جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے یہ ضرر رساں ہے۔ 2010 میں جرنل آف میڈیسن اینڈ لائف میں ایک تحقیق پیش ہوئی کہ غصہ کے سبب جسمانی اور ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین طبیعیات کے مطابق غصہ کی شدت بہت سی بیماریوں کو دعوت دیتی ہے۔ حد سے زیادہ غصہ ڈپریشن کا مرض لاتا ہے۔ ڈپریشن کا مریض اپنے آپ کو لاغر اور ضعیف محسوس کرتا ہے، اس کی زندگی سے رغبت اور اپنے کاموں سے دل چسپی کافور ہونے لگتی ہے، ایسا مرض خودکشی کے رجحان کو ہوا دیتا ہے۔ OCD, ADHD, ODDاور کئی سارے امراض ذہن کو کم زور کرتے ہیں۔ بی پی (خون کی بیماری)، دل کی بیماری، اعضاء میں درد یا اچانک بخار کا آنا وہ جسمانی امراض ہیں جو بسا اوقات غصیلے رویوں کے سبب ہوتے ہیں۔ صحت مند والدین ہی صحیح روش میں تربیت کرسکتے ہیں اگر ذہن تناؤ کا شکار رہتا ہو اور جسم بیماریوں میں گھرا ہو، تو صحت افزا تربیت کا مشقت آمیز کام کیسے انجام پاسکتا ہے۔ ایسے گھر میں بچوں کو متعدد ذہنی امراض بچپن سے ہی لاحق ہوجاتے ہیں اور ان کی خرابی صحت ان کی تعلیمی کارکردگی اور کھیل کود کی قابلیت کو نقصان پہنچاتی ہے۔

مختلف تحقیقات سے غصہ کے جو مہلک نتائج سامنے آئے ہیں، ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس پر کنٹرول حاصل کرنا والدین اور بچوں کی صحت اور ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ کون سی ترکیبیں اور تدبیریں ہیں جو غصے کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔

(جاری)

a3w
a3w