ایشیاء
ٹرینڈنگ

توشہ خانہ کیس میں رہائی سے قبل عمران خان دوبارہ گرفتار

ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں دی گئی سزا معطل کرتے ہوئے عمران خان کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ تاہم اٹک جیل سے ان کو رہا کرنے کے بجائے انہیں سرکاری رازداری ایکٹ کے تحت سائفر کیس میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا ہے۔

نئی دہلی: پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کو سائفر کیس میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج دوپہر توشہ خانہ کیس میں دی گئی سزا معطل کرتے ہوئے عمران خان کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

متعلقہ خبریں
ماونواز لیڈر کشن جی کی اہلیہ سجاتکا زیرحراست!
خط اعتماد چرانے والوں پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے: عمران خان
عمران خان کے خلاف غداری کیلئے اُکسانے کا کیس درج
پاکستانی فوج کا مجھے 10سال جیل میں ڈالنے کا منصوبہ
نازیبا سلوک پر اسسٹنٹ ٹیچر معطل

تاہم اٹک جیل سے ان کو رہا کرنے کے بجائے انہیں سرکاری رازداری ایکٹ کے تحت سائفر کیس میں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ جب وہ وزیراعظم تھے تو انہوں نے سرکاری دستاویزات کا بے جا استعمال کیا تھا۔

واضح رہے کہ عمران خان نے وزارت عظمی کا عہدہ چھوڑنے سے قبل ایک ریالی میں چند کاغذات لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کی سازش کررہا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے توشہ خانہ کیس میں ان کی سزا کی معطلی اور رہائی کے حکم سامنے آتے ہی پاکستان تحریک انصاف کے قائدین، کارکنوں اور عوام میں مسرت کی لہر دوڑ گئی تھی جبکہ کئی پارٹی کارکن مٹھائی لے کر اٹک جیل بھی پہنچ گے تھے تاہم پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔

قبل ازیں موصولہ اطلاعات کے بموجب اسلام آباد ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد اٹک جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

گزشتہ روز سابق وزیراعظم کی درخواست پر سماعت کے بعد چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

عمران خاں کی سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیس کا فیصلہ کاز لسٹ میں شامل نہیں تھا، اس لیے فیصلے کی کاپی کچھ دیر میں فراہم کردی جائے گی، بس اتنا بتا رہے ہیں کہ درخواست منظور کرلی ہے۔

عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ خلاف قانون قرار دے کر کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی اور درخواست کی تھی کہ مرکزی اپیل پر فیصلے تک سزا معطل کرکے رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔

عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھا نے ایک پوسٹ میں سزا معطلی کے فیصلے کی تصدیق کی، انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب نے ہماری درخواست منظور کر لی، عامر فاروق نے سزا معطل کرتے ہوۓ کہا ہے کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں لے لیجیے گا۔

عمران خان کی جانب سے وکیل سردار لطیف کھوسہ، سلمان اکرم راجا، بابر اعوان ، بیرسٹر گوہر، شعیب شاہین و دیگر عدالت میں پیش ہوئے جب کہ الیکشن کمیشن پاکستان کی نمائندگی وکیل امجد پرویز نے کی تھی۔

گزشتہ روز الیکشن کمیشن کے وکیل ایڈووکیٹ امجد پرویز نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ ریاست کو اس کیس میں مدعا علیہ بنانے کے لیے نوٹس جاری کرے جب کہ عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا تھا کہ انہیں امجد پرویز کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن قانون کے مطابق کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔

واضح رہے کہ 5 اگست کو اسلام آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے عمران خان کو سرکاری تحائف کی تفصیلات چھپانے سے متعلق کیس میں کرپشن کا مجرم قرار دیتے ہوئے 3 سال قید کی سزا سنائی تھی، فیصلہ آنے کے فوراً بعد انہیں پنجاب پولیس نے لاہور میں واقع زمان پارک میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور نے مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ ’عدالت مطمئن ہے کہ درخواست گزار (الیکشن کمیشن) نے مؤثر اور مصدقہ ثبوت پیش کیے اور ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوگیا کہ انہوں نے توشہ خانہ سے حاصل کردہ تحائف اور 2018،2019 اور 2019، 2020 کے دوران استعمال میں لا کر بنائے گئے اثاثوں کی جھوٹی ڈیکلریشن کے ذریعے کرپٹ پریکٹسز کا ارتکاب کیا‘۔

اس کے بعد عمران خان نے توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ خلاف قانون قرار دے کر کالعدم قرار دینے کی استدعا کی تھی۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے عمران خان کی سزا میں ’پروسیجرل غلطیوں‘ کی نشاندہی کی اور عمران خان کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرنے کا انتخاب کیا۔

 عدالت عظمیٰ کے ریمارکس پر پاکستان بار کونسل نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ماتحت عدلیہ کے زیر التوا معاملات میں ’مداخلت‘ نہیں ہونی چاہیے۔

اس کے علاوہ ایک اور پیش رفت میں گزشتہ روز اٹک جیل حکام نے سپریم کورٹ کے 24 اگست کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کو اٹک جیل میں دی جانے والی سہولیات کی تفصیلات سے متعلق رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کردی تھی۔

یہ پیش رفت بشریٰ بی بی کی جانب سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کے بعد سامنے آئی تھی جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ان کے شوہر کو شدید خطرہ لاحق ہے اور ان کی صحت تیزی سے بگڑ رہی ہے۔

گزشتہ رات سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ باہر نہیں آئیں گے—رہائی ممکن نہیں، دیگر کیسز میں پراسیکیوشن کا سامنا کرنا ہو گا۔

پی ٹی آئی کے رہنما بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کی سزا معطلی کا پہلا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ تحریک انصاف کے چیئرمین کی حیثیت سے اب بحال ہوگئے ہیں۔

عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کی سزا معطل ہوگئی ہے، وہ تحریک انصاف کے چیئرمین تھے اور چیئرمین رہیں گے۔

بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان کی اب فوری طور پر رہائی ہونی چاہیے اور یہ جو الیکشن کرانے کے لیے نگران حکومت بیٹھی ہوئی ہے وہ ایسا کھیل نہ کھیلے کہ ان پر سے چھوٹا موٹا اعتبار بھی ختم ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ یہ طے ہوگیا کہ یہ ایک کینگرو کورٹ کا فیصلہ تھا جو کہ آج معطل ہوگیا ہے۔