حضورؐ کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت، حکومت ایسے شرپسندوں کے خلاف سخت کارروائی کرے: مولانا فضل الرحیم مجددی
مولانا نے آج یہاں جاری ایک مذمتی بیان میں کہا کہ بدزبانی، نفرت انگیز اور دونوں فرقوں میں اشتعال پھیلانے کے لئے بدنام یتی نرسنگھانند نے ایک مرتبہ پھر اپنی بدزبانی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے حضور اکرم کی شان میں گستاخانہ باتیں کی ہیں اور سارے عالم کے لئے رحمت اور مسیحا بناکر بھیجے گئے۔
نئی دہلی: پیغمبر حضرت محمد صعلم کی ذات مبار ک اور ان کی شان میں گستاخی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے کہا کہ یتی نرسنگھانند کی حضور کی شان میں گستاخی ناقابل برداشت ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
مولانا نے آج یہاں جاری ایک مذمتی بیان میں کہا کہ بدزبانی، نفرت انگیز اور دونوں فرقوں میں اشتعال پھیلانے کے لئے بدنام یتی نرسنگھانند نے ایک مرتبہ پھر اپنی بدزبانی کا ثبوت پیش کرتے ہوئے حضور اکرم کی شان میں گستاخانہ باتیں کی ہیں اور سارے عالم کے لئے رحمت اور مسیحا بناکر بھیجے گئے۔
حضور صلعم کے بارے میں جو کچھ کہا ہے کہ وہ نہایت دل آزار، تکلیف دہ اور صبر آزما ہے اور اس بدزبان شخص کو شروع سے ہی چھوٹ دی گئی ہے جس کے نتیجے میں پھر اس کی زبان دہ بہ دن مزید زہریلی ہوتی جارہی ہے اور اس نے حضور اکرم کے بارے میں جو تازہ بیان دیا ہے اور جس طرح کی غلیظ باتیں کہی ہیں وہ ناقابل برداشت ہیں۔
اور کسی بھی مہذب معاشرے میں اس طرح کے بیان کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہاکہ حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس بدزبان شخص کو فوراً گرفتار کرکے ایسی کڑی اور سخت سزا دے کہ وہ دوسروں کے لئے نشان عبرت بن جائے۔
انہوں نے کہاکہ یہ بات بھی نہایت افسوسناک ہے کہ حضوراکرم کی شان میں پے در پے گستاخی کے واقعات پیش آرہے ہیں اور ہمارا یہ احساس ہے کہ ایسے واقعات ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں اور جان بوجھ کر حضور اکرم کی شان میں گستاخی کی جاتی ہے تاکہ ملک کا ماحول خراب کو خراب کیا جائے اور امن و امان کو شر اور فساد میں تبدیل کیا جائے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ حکومت گستاخان رسول سے چشم پوشی کرکے ملک کے امن و امان کو داؤ پر لگارہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسلمانان ہند کا مطالبہ ہے کہ ایسے واقعات کے سلسلے میں پوری ذمہ داری کے ساتھ سخت کارروائی ہو اور ہمیشہ کے لئے اس کے سدباب کا راستہ تلاش کیا جائے، ایسی قانون سازی ہونی چاہئے کہ مقدس شخصیات کی حرمت پامال نہ کی جائے اور امن و امان کونقصان پہونچانے کی کوشش ناکام ہوسکے۔