مشرق وسطیٰ

اسرائیل مغربی کنارے ایک بستی کا منصوبہ شروع کرنے کے فیصلے سے دستبردار ہو جائے: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوچاریک نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ منصوبہ دو ریاستی حل کے مواقع کو ختم کر دے گا۔ یہ بستیاں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی پر مبنی ہیں اور قبضے کو مزید تقویت دے رہی ہیں۔

نیویارک: اقوام متحدہ نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں ایک بستی کا منصوبہ شروع کرنے کے فیصلے سے دستبردار ہو جائے۔ اقوام متحدہ نے اسے ایک ایسا منصوبہ قرار دیا جو علاقے کو تقسیم اور مشرقی القدس سے الگ کر دے گا۔

اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوچاریک نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ منصوبہ دو ریاستی حل کے مواقع کو ختم کر دے گا۔ یہ بستیاں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی پر مبنی ہیں اور قبضے کو مزید تقویت دے رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کے یہ بیانات اسرائیلی وزیر خزانہ سموٹریچ کے اس اعلان کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں انہوں نے ایک طویل عرصے سے زیر التوا بستی کے منصوبے پر کام شروع کرنے کا کہا تھا۔ یہ بستی مغربی کنارے کو تقسیم کر کے مشرقی القدس سے الگ کر دے گی ۔ ان کے دفتر نے اس اقدام کو فلسطینی ریاست کے قیام کے خیال کو "دفن” کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

سموٹریچ جو خود ایک آباد کار ہے نے معالیہ ادومیم میں مجوزہ بستی کے مقام پر کھڑے ہو کر کہا کہ وزیر اعظم نیتن یاہو اور امریکی صدر ٹرمپ نے "ای ون” منصوبے کی بحالی کی حمایت کی ہے۔ تاہم ان دونوں میں سے کسی کی طرف سے ابھی تک کوئی تصدیق نہیں کی گئی۔ سموٹریچ نے مزید کہا کہ دنیا میں جو بھی آج فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اسے دستاویزات، فیصلوں یا بیانات کی ذریعے نہیں بلکہ حقیقی عمل کے ذریعے ہمارا جواب ملے گا۔ یہ گھروں کی حقیقت کی صورت میں ہوگا اور رہائشی محلوں کی حقیقت کے ذریعے ہوگا۔

واضح رہے اسرائیل نے 2012 میں معالیہ ادومیم میں تعمیراتی منصوبوں کو روک دیا تھا اور پھر 2020 میں انہیں دوبارہ شروع کرنے کے بعد بھی روک دیا کیونکہ امریکہ، یورپی اتحادیوں اور دیگر عالمی طاقتوں کی طرف سے اعتراضات کیے گئے تھے۔ انہوں نے اس منصوبے کو فلسطینیوں کے ساتھ مستقبل کے کسی بھی امن معاہدے کے لیے خطرہ سمجھا تھا۔

یہ اقدام اسرائیل کی تنہائی میں مزید اضافہ کر سکتا ہے، جو حماس کے ساتھ جنگ میں غزہ پر اپنے فوجی حملے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ارادے کے اعلان پر بعض مغربی اتحادیوں کی طرف سے مذمت کا سامنا کر رہا ہے۔فلسطینیوں کو خدشہ ہے کہ مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر جو 2023 میں حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے تیزی سے بڑھ گئی ہے انہیں علاقے میں اپنی ریاست قائم کرنے کے کسی بھی موقع سے محروم کر دے گی۔ مغربی کنارے اور مشرقی القدس میں 27 لاکھ فلسطینیوں کے درمیان قریبا سات لاکھ اسرائیلی آباد کار بھی رہتے ہیں۔ اسرائیل نے مشرقی القدس کو ضم کر لیا ہے۔ یہ ایک ایسا قدم جسے زیادہ تر ملکوں نے تسلیم نہیں کیا ہے۔

متعلقہ خبریں
اسرائیل میں یرغمالیوں کی رہائی کیلئے 7 لاکھ افراد کا احتجاجی مظاہرہ
روسی صدر کی مشرق وسطیٰ میں تنازعات کے خاتمے میں مدد کی پیشکش
اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں فلسطین پر اسرائیلی قبضہ کے خلاف قرارداد منظور
اقوام متحدہ کی اسرائیل سے نسل کشی کا خاتمہ کرنے کی اپیل
بے لگام اسرائیل دنیا کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے:شاہ اُردن