قطب مینار کامپلکس کی مغل مسجد کا مسئلہ، محکمہ آثار قدیمہ سے ریکارڈ طلب
مسجد میں نماز پر پابندی گزشتہ برس مئی میں عائد کی گئی اور ہنوز جاری ہے۔ انتظامی کمیٹی کے وکیل ایم سفیان صدیقی نے دلیل دی کہ اس مسجد میں قیام سے لے کر گزشتہ برس 13 مئی کو حکام کی مداخلت تک پابندی سے نماز ادا کی جاتی رہی ہے۔
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے محکمہ آثارِ قدیمہ (اے ایس آئی) کو ہدایت دی کہ وہ 24 جنوری 1914 کے اعلامیہ کا ریکارڈ فراہم کرے جس کی رو سے قطب مینار کامپلکس کے اندر واقع ایک مسجد کو محفوظ تاریخی عمارت قراردیاگیا تھا۔
دہلی وقف بورڈ کی مقررہ انتظامی کمیٹی برائے مسجد کی درخواست پر یہ ہدایت جاری کی گئی۔ کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ مسجد میں عبادت روک دی گئی ہے۔ مغل مسجد کہلانے والی یہ عبادت گاہ قطب کامپلکس کے اندر واقع ہے لیکن قطب انکلوژر کے باہر ہے۔
مسجد میں نماز پر پابندی گزشتہ برس مئی میں عائد کی گئی اور ہنوز جاری ہے۔ انتظامی کمیٹی کے وکیل ایم سفیان صدیقی نے دلیل دی کہ اس مسجد میں قیام سے لے کر گزشتہ برس 13 مئی کو حکام کی مداخلت تک پابندی سے نماز ادا کی جاتی رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسجد محفوظ تاریخی عمارت کے زمرہ میں نہیں ہے۔ جسٹس پرتیک جالان نے کہا کہ عدالت کو یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا مسجد 1914کے اعلامیہ کی رو سے محفوظ علاقہ میں پڑتی ہے یا نہیں۔
عدالت نے فریقین کو ہدایت دی کہ وہ تحریری دلیل جمع کرائیں۔ کوئی متعلقہ فیصلہ ہو تو اس کی تفصیل بھی دی جائے۔ عدالت نے اگلی تاریخ سماعت 13 اکتوبر مقرر کی۔
دوسری جانب وقف بورڈ کی مقررہ انتظامی کمیٹی کی دلیل ہے کہ اگر یہ مسجد آثارِقدیمہ قانون 1956کی دفعہ 16کے تحت محفوظ تاریخ عمارت ہے تب بھی حکام کو اس کی مذہبی نوعیت اور تقدس برقراررکھنا ہوگا۔ نمازیوں کو وہاں آنے اور عبادت کرنے کے ان کے حق کا تحفظ کرنا ہوگا۔