سیاستمضامین

زمیں ہمیشہ لہو کے لیے ترستی رہے

پروفیسر اخترالواسع

سات اکتوبر سے جاری غزہ کا گھمسان تھم سا گیا ہے۔ اس میں قطر اور مصر نے جو بنیادی اور محوری کردار ادا کیا ہے، اس کی ساری دنیا ستائش کر رہی ہے لیکن آثار و قرائین سے پتہ چل رہا ہے کہ جنگجو اسرائیل اس جنگ بندی سے پوری طرح نہ تو خوش ہے اور نہ مطمئن۔ وہ جنگ بندی جو جمعرات سے لاگو ہونی تھی اسے اسرائیل نے ایک دن کے لیے بڑھا دیا ہے اور اب وہ گمان غالب یہ ہے کہ جمعہ سے لاگو ہوگی۔ اس میں اسرائیل کے پچاس یرغمالی اور فلسطین کے ایک سو پچاس قیدی حماس اور اسرائیل کی قید سے رہا ہوں گے۔ امید کی جاتی ہے کہ ان میں عورتیں اور بچے زیادہ ہوں گے۔ ہم اس جنگ بندی کا خیر مقدم بھی کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ :
خدا کرے کہ یہ شبنم یوں ہی برستی رہے
زمیں ہمیشہ لہو کے لیے ترستی رہے
اب بھی بہت دیر سے یہ فیصلہ ہوا ہے اور ہزاروں لوگ جن میں بچوں اور خواتین کی تعداد زیادہ ہے، اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو ہوں یا ان کے دوسرے انتہا پسند وزرا اور رفقائے کار، وہ سب اس کے لیے پوری طرح ذمہ دار ہیں۔ بلاشبہ اس جنگ کا آغاز حماس کے عسکری بازو نے کیا تھا اور بظاہر اس کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن اسرائیل جس طرح غزہ کو ایک قید خانے میں تبدیل کیے ہوئے تھا، وہاں انسانی زندگی کو مستقل شرمسار کر رہا تھا۔ فلسطینیوں کی زمین پر جس طرح صہیونی بستیاں بسا رہا تھا، جس طرح مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے پر رکاوٹیں ڈالی جا رہی تھیں، قبلہ اول کا تقدس پامال کیا جا رہا تھا، دو ریاستی حل پر عمل درآمد اسرائیل کے ذریعے نہیں ہونے دیا جا رہا تھا، اس کے بعد جنگ آمد بجنگ آمد کے علاوہ کیا راستہ رہ گیا تھا؟
یہ وہ تمام باتیں ہیں جن کا ادراک دیر سے ہی سہی لیکن باقی دنیا نے کر ہی لیا اور ان ممالک نے بھی جنہوں نے اسرائیل دوستی کا دم بھرتے ہوئے پہلے اس کی تائید کی تھی، وہ بھی بالآخر اس کے خلاف بولنے پر مجبور ہو گئے، اس کی سفاکیت، بہیمیت اور غزہ اور اس کی آبادی کو تہہ و بالا کرنے کی بھرپور مذمت کرنے پر مجبور ہوئے۔ فلسطینیوں کے پاس کھونے کے لیے جان کے سوا تھا ہی کیا؟ تو بقول صدر الدین آزردہ:
اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں‎
اس جنگ میں فلسطینیوں نے اپنے پیاروں کو بڑی تعداد میں کھویا جس کا جتنا بھی ماتم کیا جائے، کم ہے۔ لیکن یہ بھی پہلی مرتبہ دیکھنے کو ملا کہ فلسطین کے حق میں جتنی آوازیں دنیا کے ہر ملک میں اتنے واشگاف انداز سے اٹھیں، اس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ خود اسرائیل کے حلیف امریکہ، برطانیہ اور فرانس کو اپنے موقف میں تبدیلی لانے پر مجبور ہونا پڑا اور اسرائیل پر یہ کامیاب دباؤ بنانے میں کامیاب ہوئے کہ وہ جنگ بندی کے لیے راضی ہو۔ امریکہ دنیا میں جنگوں کی ترغیب کے لیے اس لیے بھی مجبور ہے کہ وہ اپنے ملک کی اسلحہ سازی کی صنعت کی بقا اور منفعت کے لیے ایسا کرنے پر مجبور ہے۔ پھر وہ دنیا میں سویت بلاک کے سقوط کے بعد ایسا کرنے پر اس لیے بھی مجبور ہے کہ وہ تیسری دنیا کے انسانی وسائل اور جغرافیائی حد بندیوں کے ذریعہ اپنا تسلط بنانا چاہتا ہے۔ اسی لیے پہلے صدام حسین، کرنل معمر قدافی کو راستے سے ہٹایا گیا اور دنیا کے نقشے پر ابھرتے ہوئے دو ترقی یافتہ ملکوں کو کمزور کر دیا گیا۔ شام اور یمن میں فتنہ و فساد ہو یا افغانستان میں خلفشار، دنیا کے سامنے اب امریکہ اس کے لیے پوری طرح ننگا ہو کر سامنے آ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب وہ مسلم ممالک بھی جو امریکہ کے دباؤ میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے پر مجبور ہو گئے تھے، وہ بھی اپنے لیے نئے سفارتی رشتے ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں اور اسی لیے اردن کے نائب وزیر اعظم، مصر کے وزیر خارجہ اور فلسطین کے وزیر خارجہ پر مشتمل ایک وفد نے سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان السعود کی قیادت میں چین، روس، فرانس اور دنیا کے دوسرے ملکوں میں فلسطین کے حق میں راہ ہموار کرنے اور اسرائیل کی سینہ زوری اور ظلم و سفاکیت کے خلاف راہ بنانے کے لیے دورہ کیا ہے اور اسرائیل جس تیزی کے ساتھ جنگ بندی پر راضی ہوا ہے، اس میں مسلم ملکوں کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ بعض لوگ جانتے بوجھتے بھی مسلم ملکوں کے اس قضیے میں ادا کیے جانے والے رول میں کیڑے ڈالنے میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو شاید چاہتے ہیں کہ سارے عالم اسلام کو جنگ کی اس بھٹی میں جھونک دیا جائے جبکہ انتہائی دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیدہ و دانستہ فلسطین کے پڑوسی اور دیگر اسلامی ملکوں نے انتہائی تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کی ہر ممکنہ مدد تو کی ہے لیکن دنیا کے سامنے یہ نظیر بھی قائم کر دی ہے کہ مسلم ملک جارحیت پسند نہیں ہیں۔ وہ اسرائیل کے بھی خلاف نہیں ہیں، اگر چاہتے ہیں تو بس اتنا کہ دو ریاستی حل، جس کی تائید پر اسرائیل کے بھی دستخط ہیں، کو عملی طور پر ممکن کر دکھایا جائے اور مشرقی یروشلم اس کا دارالخلافہ ہو۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ مسلم ملک ہی ہیں جو ترکی، ایران اور ملیشیا سمیت فلسطینیوں کے لیے بے باکی سے آواز اٹھا رہے ہیں اور آج صرف مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر ملک میں امریکہ سمیت جتنے بڑے مظاہرے ہو رہے ہیں، بعض ملکوں کی حکومتوں کا رویہ چاہے کتنا ہی اسرائیل حامی ہو لیکن وہاں کے مسلمان ہی نہیں غیر مسلم بھی، اور غیر مسلموں میں یہودی بھی غزہ کے مظلوموں اور فلسطینیوں کے دیرینہ حقوق کی پامالی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ خود اسرائیل میں بھی وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف زبردست مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ہندوستان، جس نے شروع میں اسرائیل کی حمایت میں بیان دیا تھا، اس نے ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی کے اشارے پر اپنا رول کافی بدل لیا ہے اور انسانی جانوں کے اتلاف پر خاصہ مذمتی رخ اپنایا ہے۔
ہم جنگ بندی چار دن کی نہیں چاہتے بلکہ دائمی چاہتے ہیں۔ ہم ہر طرح کی جنگ کے خلاف ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ ہر طرح کی حق تلفی، ناانصافی اور ظلم کے خلاف بھی۔ اس لیے ہماری رائے ہے کہ امریکہ سمیت دنیا کے دوسرے تمام ملک جو امن و انصاف کو یقینی بنانا چاہتے ہیں، انھیں مظلوم، مقہور اور مجبور فلسطینیوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ امریکہ کو جس کی سر زمین پر دو ریاستی فارمولے پر اسرائیلی وزیر اعظم اور فلسطینی آزادی کی تحریک کے رہنما یاسر عرفات نے دستخط کیے تھے، کے ممکنہ عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہیے اور ساری دنیا کے ممالک بالخصوص یورپی ممالک کو اس کا فوری طور پر ساتھ دینا چاہیے کیوں کہ دنیا میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ مشرق وسطی میں امن و امان کے قیام کو یقینی نہیں بنایا جاتا اور مشرق وسطی میں امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ فلسطینیوں کو ایک ریاست یروشلم کی مرکزیت کے ساتھ حاصل ہو۔
ہم اس موقع پر اسپتالوں، عبادت گاہوں، تعلیمی اداروں اور شہری آبادیوں کے مسمار کیے جانے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور جو لوگ کہ اس جنگ میں بے قصور مارے گئے، ان کے ہم وطنوں سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پروفیسر ایمریٹس اسلامک اسٹڈیز ہیں)