حضرت بانی جامعہ نظامیہؒ کی حیات وعلمی خدمات: ڈاکٹرحافظ محمد صابر پاشاہ قادری
انسانی زندگی میں حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ اس کے بہترین فہم اور حق و باطل کے درمیان امتیاز اور مکمل فرقان کا ذریعہ صرف قرآن ہے۔
انسانی زندگی میں حق کیا ہے اور باطل کیا ہے؟ اس کے بہترین فہم اور حق و باطل کے درمیان امتیاز اور مکمل فرقان کا ذریعہ صرف قرآن ہے۔ عصرِ حاضر میں انسانیت قرآن ہی کے ذریعے خوف و حزن سے نجات پاسکتی ہے اور ہر خوف و حزن سے ماوراء ہوسکتی ہے۔ قرآن کو جس جس رخ سے دیکھیں یہ روشن ہی روشن ہے۔ یہ روشن انسانی زندگی کا لائحہ عمل ہے، یہ روشن راستہ بھی ہے اور روشن منزل بھی ہے۔
اس روشن کتاب کی آیات اپنی تلاوت، اپنے فہم اور ابلاغِ معنی میں جب حضرت شیخ الاسلام والمسلمین استاذ سلاطین عارف باللہ الامام الحافظ مولانا محمد انوار اللّٰہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمۃ والرضوان بانی جامعہ نظامیہ کی زبان و قلم سے ادا ہوتی ہیں,ملکی و بین الاقوامی سطح پر حضرت بانی جامعہ نظامیہ رحہ کو ایک عہد ساز شخصیت کے طور پر اور ایک مجدد و مصلح کے طور پر باقاعدہ تسلیم کیا گیا ہے جو کہ آپ کی تجدید و اصلاح کے لیے کی گئی عظیم خدمات کا اعتراف ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت بانی جامعہ نظامیہ رحہ کی نابغہ عصر و عہد ساز شخصیت پر دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیز میں متعدد پی ایچ ڈی کی گئیں۔ دنیا بھر کے بڑے بڑے اداروں نے دنیا کی موثر شخصیات کی فہرست میں آپ کو شامل کرکے آپ کو ملکی، قومی و بین الاقوامی سطح پر بڑے القاب سے نوازا گیا ہے۔ ان عظیم کامیابیوں پر ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شکر گزار ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ ہمیں اور ہماری نسلوں کو اس مصطفوی مشن میں استقامت عطا فرمائے ،۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے خود ارشاد فرمایا تھا:لَايقُوْمُ بِدِيْنِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ اَحَاطَه مِنْ جَمِيْعِ جَوَانِبِه.’’دین کو وہی شخص زندہ کرسکے گا جو دین کے تمام پہلوؤں کو اپنی جدوجہد کے احاطے میں داخل کرے گا‘حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ نے علوم کی ترویج کے ساتھ ساتھ سماجی خرابیوں کے ازالہ کے لئے بھی زبردست خدمات انجام دیں‘ علماء کو یہ پہلو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ آج مسلم معاشرہ کے اندر جو خرابیاں آئی ہیں اس کو دور کرنا علماء کا فریضہ ہے. دعوت دین میں عملی اور اخلاقی کشش کے بغیر کام موثر ثابت نہیں ہوتا۔ خوش بیانی کی نسبت خوش اخلاقی اور خوش عملی زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے داعی کی شیریں بیانی خوش اخلاقی اور تحمل مزاجی شدید ترین مخالف کا دل بھی اپنی طرف کھینچتی ہے سرور کونین ﷺ کا یہی طرز عمل کفار اور مشرکین کو کشاں کشاں دائرہ اسلام میں لے آیا۔ دعوت و تبلیغ کے میدان میں نرم گفتاری کی اہمیت سے کوئی داعی اور مبلغ بے خبر نہیں رہ سکتا قرآن مجید میں آنحضور ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا گیا:
وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ.
(آل عمران، 3: 159)
’’اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے۔‘‘
عکرمہ فتح مکہ کے بعد فرار ہوگیا اس کی بیوی نے آنحضور ﷺ سے اس کے لیے معافی طلب کی وہ واپس مکہ آنے سے ڈر رہا تھا کہ شاید یہ کوئی چال نہ ہو بہر حال بیوی کی یقین دہانی پر آگیا وہ جس وقت مسجد نبویؐ میں داخل ہوا حضور ﷺ اسے دیکھ کر اس قدر تیزی کے ساتھ اٹھے کہ چادر مبارک نیچے گر گئی اور آپ ﷺ نے آگے بڑھ کر عکرمہ کو گلے لگالیا وہ تو اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا تھا کہ کہیں کسی سازش کا شکار نہ ہوجائے یہ حسن اخلاق دیکھ کر اس کی چیخیں نکل گئیں اور قدموں میں ڈھیر ہوگیا۔
فتح مکہ کے بعد کفار کی کمر ہمت ٹوٹ گئی سرداران مکہ میں سے اکثر کا قبول اسلام بخوشی نہ تھا ان میں ایک صفوان بن امیہ بھی تھا سرکار دو عالم ﷺ نے اسے تین سو اونٹ عنایت فرمائے اس کا بیان ہے کہ آپ ﷺ نے مجھے اتنا عطا کیا کہ شان فیاضی دیکھ کر میرے دل کا بغض ختم ہوگیا اور آپ میرے نزدیک محبوب ترین شخصیت بن گئے۔آپ ﷺ ایک یہودی عالم کے مقروض تھے۔ ایک دن اس نے قرض کی واپسی کا تقاضا کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس وقت میرے پاس رقم نہیں وہ بضد ہوا اور آپ ﷺ کو ایک دن تک روکے رکھا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس گستاخی پر برہم ہوئے۔ آپ ﷺ نے انہیں ردعمل سے منع کیا اور فرمایا ’’مجھے اللہ نے کسی شخص پر ظلم کرنے سے منع کیا ہے‘‘ دن چڑھنے پر یہودی مسلمان ہوگیا اور نصف مال اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ کہنے لگا: میں نے یہ جسارت صرف آزمانے کے لیے کی تھی کیونکہ تورات میں نبی آخرالزمان ﷺ کے جو اوصاف درج ہیں میں ان کا ذاتی تجربہ کرنا چاہتا تھا۔
ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کچھ بکریاں مانگیں آپ ﷺ نے ایک بہت بڑا ریوڑ عطا کردیا وہ آپ ﷺ کی فیاضی سے اس قدر متاثر ہوا کہ واپس جاکر قبیلہ والوں کو اکٹھا کرکے کہا ’’مسلمان ہوجاؤ محمد ﷺ اس قدر عطا کرتے ہیں کہ مفلسی کا خدشہ باقی نہیں رہتا۔
ایک مرتبہ کسی یہودی کا ایک بچہ آپ ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا بیمار ہوکر قریب المرگ تھا آپ خود چل کر اس کے گھر گئے تیمارداری کی اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اس نے اجازت کے لیے باپ کی طرف دیکھا یہودی آپ ﷺ کے حسن سلوک سے اس قدر متاثر ہوگیا کہ بیٹے سے کہنے لگا دیکھتے کیا ہو؟ ایسے مہربان شخص پر فوراً ایمان لے آؤ۔ایک دفعہ آپ ﷺ نماز پڑھانے کے لیے مصلے پر کھڑے ہوئے ایک اعرابی کی آواز آئی اور اس نے آپ ﷺ کو پکڑ کر پیچھے کھینچ لیا آپ نے پہلے اس کی حاجت پوری کی پھر نماز پڑھائی۔
حضرت معاویہ بن سکم رضی اللہ عنہ نماز پڑھ رہے تھے کہ کسی کی چھینک پر یرحمکم اللہ کہہ دیا۔ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انہیں گھورنے لگے کہ دوران نماز یہ کیا کردیا لیکن نبی اکرم ﷺ نے صحابہؓ کو تو منع کیا لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ڈانٹا تک نہیں بلکہ پیار سے بتلایا کہ نماز اللہ کی بڑائی کے لیے قائم ہوجاتی ہے اس میں بات چیت کرنا منع ہے۔
۔آپؒ کے اخلاق و عادات وَإِنَّکَ لَعَلی خُلُقٍ عَظِیمٍ کا نمونہ اور إِنَّکَ لَعَلَی هُدًی مُّسْتَقِیمٍ کا مصداق تھے، آپ عالی مرتبت، جلیل القدر، وسیع العلم ہونے اور شان و شوکت کے باوجود ضعیفوں میں بیٹھتے، فقیروں کے ساتھ تواضع سے پیش آتے، بڑوں کی عزت، چھوٹوں پر شفقت فرماتے، سلام کرنے میں پہل کرتے اور طالب علموں اور مہمانوں کے ساتھ دیر تک بیٹھتے، بلکہ شاگردوں کی لغزشوں سے درگزر فرماتے، اپنے مہمان اور ہمنشین سے دوسروں کی نسبت انتہائی خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے، آپ کبھی نافرمانوں، سرکشوں، ظالموں اور مالداروں کے لیے کھڑے نہ ہوتے نہ کبھی کسی وزیر و حاکم کے دروازے پر جاتے، آپؒ علم و عرفان کا مینار تھے جس کا اعتراف آپ کے معاصر اور متاخر علماء نے کیا۔
عجز و انکساری آپ کا وصف اور حق گوئی آپ کا خاصہ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر آپ کا شیوہ تھا۔ بسیار گوئی سے پرہیز کرتے تھے۔غریبوں سے شفقت اور مریضوں کی عیادت آپ کا وطیرہ تھا۔سخاوت کا مجسمہ اور پیکر عفو و کرم تھے۔ نہایت رقیق القلب اور شرم و حیا میں اپنی مثال آپ تھے۔ وسیع القلب، کریم النفس، مہربان، وعدوں کے پاسدار، خوش گفتار اورخوش اطوار تھے۔
آپ بہت غریب پرور اور مساکین کی مدد کرنے والے تھے۔سرزمین دکن سے قادیانیت کے رد میں حضرت امام محمد انواراللہ فاروقی علیہ الرحمہ بانی جامعہ نظامیہ نے سب سے پہلے قلم اُٹھایا اور ’’افادۃ الافہام‘‘ جیسی وقیع ، بے نظیر اور معرکۃ الارا کتاب تصنیف کرکے قادیانی مذہب کا اصل چہرہ بے نقاب کردیا جس کے بعد دکن میں اس فتنہ کی خودبخود سرکوبی ہوگئی ۔ آپ تمام کو جامعہ نظامیہ کے ۱۵۰ سال کی تکمیل پر مبارکباد پیش کی جاتی ہے بالخصوص ان منتظمین اور مدرسین کو جن کے قابل تعظیم اور تقلید عمل نے گزشتہ ۱۵۰ برسوں میں لاکھوں طلباء کی زندگی کو علم دین کی روشنی سے منور کیا اور آج جامعہ نظامیہ کے یہ روشن چراغ دنیا کے گوشے گوشے میں دین کی روشنی پھیلارہے ہیں۔
میں سلام کرتا ہوں اس عظیم تایخ ساز شخصیت حضرت شیخ الاسلام و المسلمین عارف باﷲ امام اہلسنت الامام الحافظ محمد انواراللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمۃ والرضوان بانی جامعہ نظامیہ حیدراباد کو جنھوں نے ۱۹ ذی الحجہ ۱۲۹۲ہجری میں اس دینی درسگاہ کی داغ بیل ڈالی بیشک آج وہ جسمانی اعتبار سے ہمارے بیچ نہیں ہیں لیکن ان کی روحانی موجودگی کو ہم اس وقت بھی محسوس کررہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے ۔ یہ انھیں کے ذریعہ جلائی گئی شمع کی روشنی کا کمال ہے کہ آج یہاں دنیا بھر سے آئے دین کے چاہنے والوں کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع ملتا اور طالبان علم کو زیور علم سے آراستہ کیا جاتا ہے۔
آپ کے مختصر کارنامے حسب ذیل ہیں: انوار احمدی ، مقاصد الاسلام (گیارہ حصے ) ، حقیقۃ الفقہ ( دو حصے ) بشری الکرام ، الکلام المرفوع ، افادۃ الافہام ( دو حصے ) انوارالتمجید ، شمیم الانوار (حمدیہ ، نعتیہ و صوفیانہ کلام ) انوارالحق ، کتاب العقل ، خدا کی قدرت ، انواراللہ الودود ، مسئلہ الربوا ، منظوم مسدس میلاد النبی مخطوطات ، مجموعہ منتخبہ من کتب الصحاح (حدیث عربی ) ، انتخابات فتوحات مکیہ حواشی : فتوحات مکیہ ، مسلم الثبوت ، فصوص الحکم ، پر آپ نے حاشیئے تحریر کئے ہیں۔ جامعہ نظامیہ ، دائرۃ المعارف العثمانیہ ، کب خانہ آصفیہ ( اسٹیٹ سنٹرل لائبریری ) مجلس اشاعت العلوم ، امداد المعارف ، مدرسہ شاہی مکہ مسجد ، دارالعلوم معینیہ اجمیر شریف ۔
حضرت کے ملکی ہمعصر ادیب حضرت حسن الزماں الفاطمی ، عزیز جنگ ولا ، عبدالحلیم شررؔ ، مولانا وحید الزماں، حضرت سید محمد علی حسین اشرفی میاں، حضرت مولانا احمد رضا خان رضاؔ ، عمادالملک بلگرامی ، محسن الملک ، مولانا فراہی ، عبدالجبار خان صوفی ، محمد حسین آزاد ، نذیر احمد ، مانک راؤ وٹھل راؤ ، شبلی نعمانی ، سرسید احمد خان ، عالمی احمد عمر بن محمد صاحب نفحۃ الیمن ( مصر) حضرت وارث علی شاہ ، حضرت مہر علی شاہ ( پاکستان ) ، علامہ شہاب الدین آلوسی ( صاحب تفسیر روح المعانی ) ۔ چند مشہور تلامذہ محدث دکن حضرت سید عبداللہ شاہ نقشبندی ، حضرت مفتی سید احمد علی قادری صوفی ، حضرت مفتی محمد رکن الدین ، حضرت سید ابراہیم ادیب رضوی،نواب میر محبوب علی خان ، نواب میر عثمان علی خان ، حضرت مظفرالدین معلی، حضرت مفتی محمد رحیم الدین رحمہم اللہ تعالیٰ ۔بہرحال حضرت بانی جامعہ نظامیہ رحہ عمل کے انسان تھے۔
پیکر اخلاق حسنہ تھے۔ انوار احمدی مقاصد الاسلام کا بنظر غائر مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت بانی جامعہ نظامیہ رحہ پیکر اخلاقِ کریمانہ تھے۔ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جوں جوں مدارج طے کیے توں توں سیرت حضرت بانی جامعہ نظامیہ رحہ میں اخلاق مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک دکھائی دینے لگی۔ وہ مظہرِ اخلاقِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بن گئے۔ ۔ حضرت بانی نظامیہ رحہ وہ مبلغ نہ تھے جن کیلئے ’’لِمَا تَقُوْلُوْنَ مَالَا تَفْعَلُوْنَ‘‘ کا حکم قرآنی ہے۔ وہ اوروں کو تعلیم و تلقین کر کے خود ’’تَنْسُوْنَ اَنْفُسَکُمْ‘‘ کے مصداق ہرگز نہ تھے۔ وہ مبلغ بالقول بھی تھے اور مبلغ بالعمل بھی تھے۔ ان کی زندگی کے شب و روز میں ہزارہا قرائن و شواہد موجود ہیں۔ ہزارہا مظاہر اخلاقِ حمیدہ موجود ہیں۔ یہ صرف خوش عقیدگی کے دعوے ہی نہیں بلکہ امر واقعہ ہے کہ وہ مظہر اخلاق محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔