مضامینقومی

’انقلاب زندہ آباد‘ ہر سمت یہ صدا ہو

جارج واشنگٹن نے کہا تھا کہ تعلیم ایک ایسی کنجی ہے جس سے آزادی کاسنہرا دروازہ کھلتا ہے۔ یہ بات مادر وطن پر آج پوری طرح اترتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ ہندوستان میں تعلیم کا بڑھتا ہوا چلن مثبت نتائج لاکر رہے گا۔

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس‘پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786

جارج واشنگٹن نے کہا تھا کہ تعلیم ایک ایسی کنجی ہے جس سے آزادی کاسنہرا دروازہ کھلتا ہے۔ یہ بات مادر وطن پر آج پوری طرح اترتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ ہندوستان میں تعلیم کا بڑھتا ہوا چلن مثبت نتائج لاکر رہے گا۔ اکثرحالات میں ناکامی کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آد می فورا کامیابی چاہتا ہے جبکہ کامیابی اور ناکامی اتنی اہم نہیں جتنا کہ انتخاب مقصد ہو۔

آج کے ہندوستان کے انقلابی لیڈر راہول گاندھی اپنی بے لاگ خدمات کے ذریعہ آہستہ آہستہ کامیابی کی سمت بڑھ رہے ہیں۔ انہیں اپنے مقصد کے حصول کے لئے کوئی جلد بازی کرنے کی ضرورت نہیں پڑرہی ہے۔ الیکشن کمیشن میں ہونے والی دھاندلیوں کو انہوں نے انتہائی شاندار ڈھنگ سے اجاگر کیا ہے اور سپریم کورٹ کا اس موضوع پر عمل انتہائی خوش آئند ہے۔

سپریم کورٹ نے انتہائی اہم فیصلہ کرتے ہوئے ایک عبوری حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں اس نے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو ہدایت دی ہے کہ وہ ان 65 لاکھ ووٹرس کے نام الیکٹرول رول میں شامل کریں جن کو اس نے حذف کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے جس میں جسٹس سوریا کانت اور جوئے مالیہ باغچی شامل ہیں، ہدایت دی کہ یہ لسٹ انفرادی وجوہات بتاتے ہوئے شائع کی جائے جس میں موت، نقل مقام یا پھر لاپتہ ہونے کی وجوہات دکھائی جائے۔

یہ عمل ہر اس شخص کے لئے کیا جائے جو 65 لاکھ افراد کی فہرست میں شامل ہے جو بہار میں اسپیشل انٹینسیو ریویجن یعنی SIR کے دوران خارج کئے گئے تھے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن سے دریافت کیا ہے کہ اگر 65 لاکھ ووٹرس میں سے 22 لاکھ ووٹرس انتقال کرگئے ہیں تو پھر ان کے نام کیوں نہیں بتائے گئے ہیں؟ لوگوں میں یہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ مرنے والوں کے ورثا تک کونہیں معلوم کہ وہ کب انتقال کرگئے ہیں۔

سپریم کورٹ نے اس سلسلہ میں زندہ پونم دیوی کی مثال دی جس کا نام فہرست رائے دہندگان سے اس لئے نکال دیا گیا کہ وہ فوت ہوچکی ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ تاثر لیا کہ ووٹرس کو فہرست میں شامل رہنے کا پورا پورا حق حاصل ہے اور یہ جمہوریت کی پہچان ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ووٹرس کے اعتماد کو مضبوط رکھنے کے لئے فہرست رائے دہندگان کا صاف و شفاف رہنا ضروری ہے۔

عدالت عالیہ نے یہ بھی کہا کہ ان تمام ووٹرس کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ آدھار کی ایک کاپی کے ساتھ ووٹرس لسٹ میں اپنا نام شامل کرنے کی درخواست دء سکیں۔ کورٹ نے آدھار کے بارے میں یہ کہا ہے کہ آدھار قانونی طور پر شناخت کا ایک مسلمہ سرٹیفکٹ ہے، اسے ایک دستاویز کے طور پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ سپریم کورٹ نے رسمی طور پر حکم دیا ہے کہ آدھار کو شناخت کا ایک ثبوت مانا جائے۔

بہر حال راہول گاندھی کی جہد مسلسل کی وجہ سے ہندوستان کی سیاسی تصویر آہستہ آہستہ بدل رہی ہے۔ مسرت کی بات یہ ہے کہ سارا اپوزیشن ایک جٹ ہوکر ان کا ساتھ دے رہا ہے جس سے یقینا دستور اور جمہوریت کی فتح بالکل قریب دکھائی دے رہی ہے۔ بہار میں 7.89 کروڑ ووٹرس میں سے 65 لاکھ لوگوں کے نام حذف کردینا ایک معمہ ہے جبکہ جنوری 2025 میں ان کے نام ووٹرس لسٹ میں شامل تھے۔ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ وہ 65 لاکھ ووٹرس کی تفصیلات تمام ویب سائٹس اور ڈسٹرکٹ الیکٹورل آفیرس کے پاس درج کروائے۔

کورٹ نے ہدایت دی کہ ان فہرستوں کو تمام متعلقہ اداروں پر چسپاں کیا جائے۔ جسٹس کانت نے کہاکہ ووٹرس کو بلاک لیول آفیسرس کے رحم و کرم پر چھوڑا نہیں جاسکتا۔ بہر حال یہ جمہوری جنگ جلد از جلد نتیجہ خیز ثابت ہوگی اور ہندوستان کے معصوم رائے دہندوں کے ساتھ پورا پورا انصاف ہوگا اور بالآکر جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوجائیں گی۔

راہول کی اس انتھک جدو جہد سے بس ایک شعر ذہن کے گوشوں میں گونجتا ہے کہ
’انقلاب زندہ آباد‘ ہر سمت پہ صدا ہو
ظلم کا دامن چور حق کی صدا ہو

‘‘Long Live the revolution, let this be the cry everywhere, may the reign of oppression end and the voice of truth prevail’’.