مدینہ بس سانحہ: لواحقین کے زخموں پر نمک—اردو اکیڈمی ڈائریکٹر کے بے حس ریمارکس ’’ جلیوے ٹکڑوں کو کیادیکھتے‘‘ پر شدید احتجاج
اس طرح کے غیر حساس ریمارکس عوام کے دکھ میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ شہریوں نے یہ سخت سوال بھی اٹھایا ہے کہ اگر خدا نخواستہ اسی عہدیدار کے اپنے خاندان کا کوئی فرد اس حادثے کا شکار ہوتا، تو کیا وہ ایسے ہی کلمات زبان پر لاتے؟
حیدرآباد: مدینہ میں پیش آئے ہولناک بس حادثے میں جاں بحق ہونے والے تلنگانہ کے عازمین کے لواحقین پہلے ہی شدید صدمے اور غم کا شکار ہیں، ایسے میں تلنگانہ اردو اکیڈمی کے ڈائریکٹر محمد صفی اللہ کے غیر ذمہ دارانہ اور دل آزاری پر مبنی ریمارکس نے عوام میں بے حد ناراضگی پیدا کر دی ہے۔ صفی اللہ کے اس بیان— “جلیوے ٹکڑوں کو کیا دیکھتے؟” —نے متاثرہ خاندانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے، جسے سماجی حلقوں نے انتہائی افسوسناک، بے حس اور ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔
عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک سرکاری عہدیدار کو ایسے نازک موقع پر انتہائی محتاط، باوقار اور ہمدردانہ زبان استعمال کرنی چاہیے، کیونکہ لواحقین پہلے ہی اپنے پیاروں کی ناگہانی موت سے نڈھال ہیں۔
اس طرح کے غیر حساس ریمارکس عوام کے دکھ میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔ شہریوں نے یہ سخت سوال بھی اٹھایا ہے کہ اگر خدا نخواستہ اسی عہدیدار کے اپنے خاندان کا کوئی فرد اس حادثے کا شکار ہوتا، تو کیا وہ ایسے ہی کلمات زبان پر لاتے؟
اس دوران یہ اہم بات بھی سامنے آئی ہے کہ چیف منسٹر اے۔ ریونت ریڈی نے خود ہر متاثرہ خاندان کے دو افراد کو سعودی عرب روانہ کرنے کی منظوری دی ہے، تاکہ وہ اپنے پیاروں کی تدفین اور دیگر کارروائیوں میں شامل ہوسکیں۔ اس صورتحال میں محمد صفی اللہ کو نہ صرف حکومتی فیصلے کا احترام کرنا چاہیے تھا بلکہ کسی بھی طرح کی توہین آمیز تشریح سے بھی گریز کرنا چاہیے تھا۔
متاثرہ خاندانوں اور سماجی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس غیر مناسب بیان کا سنجیدگی سے نوٹ لیا جائے اور سرکاری عہدیداروں کو یہ باور کرایا جائے کہ ایسے سانحات پر گفتگو کرتے وقت ذمہ داری، شائستگی اور مکمل ہمدردی ناگزیر ہے۔ مدینہ سانحے نے پوری ریاست کو سوگوار کر رکھا ہے اور عوام اس وقت حکومت سے صرف ایک ہی توقع رکھتے ہیں— عزت، احترام، سنجیدگی اور مکمل تعاون۔