جموں و کشمیر

محبوبہ مفتی سمیت کئی لیڈروں کو مزار شہدا جانے سے روکا گیا

جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور دیگر کئی سیاسی لیڈروں نے دعویٰ کیا کہ انہیں ہفتے کے روز 13 جولائی کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے پائین شہر میں واقع مزار شہدا جانے سے روکنے کے لئے خانہ نظر بند رکھا گیا۔

سری نگر: جموں و کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی اور دیگر کئی سیاسی لیڈروں نے دعویٰ کیا کہ انہیں ہفتے کے روز 13 جولائی کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے پائین شہر میں واقع مزار شہدا جانے سے روکنے کے لئے خانہ نظر بند رکھا گیا۔

متعلقہ خبریں
مہذب سماج میں تشدد اور دہشت گردی ناقابل قبول: پرینکا گاندھی
جیش کی ذیلی تنظیم نے کشمیر دہشت گرد حملہ کی ذمہ داری قبول کرلی
بی جے پی اپنی ناکامیاں چھپانے پاکستان کا ہوّا کھڑا کررہی ہے۔ محبوبہ مفتی کا پلٹ وار
جنوبی کشمیر سے آج رکن پارلیمنٹ بھی چھینا جا رہا ہے:محبوبہ مفتی
سری نگر کو جموں و کشمیر کا مستقل دارالحکومت بنادیاجائے: انجینئر رشید

بتادیں کہ 13جولائی 1931 میں اس وقت کی ڈوگرہ حکومت نے سینٹرل جیل سری نگر کے باہر جمع ہوئے کشمیری عوام پر گولیاں برسائی تھیں جس کے نتیجے میں 22 افراد فوت ہوئے تھے۔

‘یوم شہدا’ کے نام سے موسوم اس دن پر تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈر شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے 13 جولائی کو مزار شہدا پر حاضر ہوتے تھے اور اس دن سرکاری تعطیل بھی ہوا کرتی تھی تاہم 5 اگست کو دفعہ 370 کی تنسیخ اور جموں وکشمیر کو دو حصوں میں منقسم کرنے کے بعد سرکاری چھٹی کو بھی منسوخ کیا گیا اور لیڈروں کو بھی مزار پر حاضر ہونے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔

پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے انہیں خانہ نظر بند رکھنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا: ‘ہمارے شہیدوں کی قربانیاں اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیریوں کے جذبے کو کچلا نہیں جا سکتا ہے’۔

انہوں نے ‘ایکس’ پر ایک پوسٹ میں کہا: ‘مجھے مزار شہدا، جوکشمیر کی مزاحمت کے علمبردار اور آمریت، جبر و نا انصافی کے خلاف ایک پائیدار علامت تھے، پر جانے سے روکنے کے لئے میرے گھر کے دروازوں کو ایک بار پھر بند کر دیا گیا ہے’۔انہوں نے کہا: ‘ہمارے شہیدوں کی قربانیاں اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیریوں کے جذبے کو کچلا نہیں جا سکتا ہے آج اس دن شہید ہونے والے مظاہرین کی یاد میں اس کا مشاہدہ کرنا بھی جرم قرار دیا گیا ہے’۔

محبوبہ مفتی نے کہا: ‘5 اگست 2019 کو جموں وکشمیر کے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے، اس کو بے اختیار کر دیا گیا اور ہم سے ہر وہ چیز چھین لی گئی جو ہمارے لئے مقدس تھی اور وہ ہم سے اجتماعی یادوں کی ہر یاد کو چھین لینے کا ارادہ رکھتے ہیں’۔انہوں نے کہا: ‘لیکن ایسے حملے اپنے حقوق اور وقار کے لئے جنگ جاری رکھنے کے ہمارے عزم کو مستحکم کریں گے’۔

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ یہاں بند دروازوں اور لوگوں کو جموں وکشمیر میں ایک منصفانہ اور جمہوری حکومت قائم کرنے کے لئے اپنی جانیں نچھاور کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے سے روکنے کا ایک اور دور دیکھا گیا۔انہوں نے کہا کہ ان شہیدوں نے جموں وکشمیر میں ایک منصفانہ اور جمہوری حکومت قائم کرنے کے لئے اپنی جانیں قربان کیں۔

عمر عبداللہ نے ‘ایکس’ پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا: ‘ایک اور 13 جولائی، یوم شہدا، بند دروازوں اور لوگوں کو جموں وکشمیر میں ایک منصفانہ اور جمہوری حکومت قائم کرنے کے لئے اپنی جانیں نچھاور کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے سے روکنے کا ایک اور دور دیکھا گیا۔انہوں نے کہا: ‘ملک میں ہر جگہ ان لوگوں کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا جاتا لیکن جموں وکشمیر میں انتظامیہ ان کی قربانیوں کو نظر انداز کرنا چاہتی ہے’۔ان کا دعویٰ ہے: ‘یہ آخری سال ہوگا جب وہ ایسا کر سکیں گے،انشااللہ اگلے سال 13 جولائی کو سنجیدگی اور احترام کے ساتھ منایا جائے گا’۔

جموں وکشمیر پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد لون نے بھی سماجی رابطہ گاہ ‘ایکس’ کا سہارا لے کر انہیں خانہ نظر بند رکھنے کا دعویٰ کیا۔انہوں نے کہا: ‘بغیر کسی وجہ کے، مجھے گھر میں نظر بند رکھا گیا، میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انتظامیہ کو لوگوں کو مزار شہدا پر جانے سے روکنے سے کیا فائدہ حاصل ہو رہا ہے’۔

ادھر ناصر اسلم وانی اور سلمان ساگر کے علاوہ نیشنل کانفرنس کے کئی لیڈروں نے بھی خانہ نظر بندی کا دعویٰ کیا۔تاہم لیڈروں کی خانہ نظر بندی کے متعلق پولیس کی طرف سے اب تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر اور سری نگر پارلیمانی نشست کے رکن پارلیمان آغا روح اللہ نے ‘ایکس’ پر ایک پوسٹ میں کہا: ‘بی جے پی کے دور حکومت میں جمہوری ملک سمجھے جانے والے اس ملک کا اخلاقی کمپاس اتنا غلط ہوا ہے کہ وہ ان شہیدوں (13 جولائی) سے بھی خوفزدہ ہے جنہوں نے بے رحم بادشاہت اور آمریت کے خلاف جد وجہد میں اپنی جانیں نچھاور کیں ان شہیدوں نے آزادی اور انسانی وقار کی سر بلندی کے لئے اپنا خون پیش کیا’۔

انہوں نے کہا: ‘پولیس اور انتظامیہ جو ان شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرتی تھی اب ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اس قبرستان کی طرف جانے والے راستوں کو بند کریں اور جو وہاں جانا چاہتے ہیں ان کے دروازوں کو مقفل کریں’۔ان کا کہنا تھا: ‘یہ نہ صرف آزادی اور جمہوریت کے نظریے کی بے حرمتی ہے بلکہ ان اقدار کی بہت بڑی او بد صورت تبدیلی بھی ہے جن پر اس ملک کی بنیاد رکھی گئی تھی’۔

دریں اثنا پولیس نے نینشل کانفرنس اور جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے لیڈروں کو بھی مزار شہدا پر جانے سے روک دیا۔ذرائع نے بتایا کہ پارٹی صدر سید الطاف بخاری کی قیادت میں یہاں شیخ باغ میں واقع ان کی رہائش گاہ سے ہفتے کی صبح پارٹی کے لیڈروں نے مزار شہدا کی طرف جانے کی کوشش کی تاہم وہاں تعینات پولیس نے انہیں روک دیا۔

قبل ازیں اپنی پارٹی نے ایک بیان میں کہا: ’13 جولائی کو جموں و کشمیر کی تاریخ میں بہت اہمیت حاصل ہے، کیونکہ یہ ہمارے کئی بزرگوں کی قربانیوں کا دن ہے جنہوں نے 1931 میں اس دن اپنی جانیں قربان کرکے جمہوریت کی راہ ہموار کی۔

نیشنل کانفرنس کے لیڈروں نے بھی پارٹی ہیڈ کوارٹر نوائے صبح سے مزار شہدا کی طرف جانے کی کوشش کی لیکن ان کو بھی آگے بڑھنے سے روک دیا گیا۔ ادھر کل جماعتی حریت کانفرنس نے اپنے چیرمین میرواعظ مولوی محمد عمر فاروق کو گھر میں نظر بند رکھنے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا: ‘حریت کانفرنس کا یہ واضح اور اصولی موقف ہے کہ مسائل اور تنازعات کو پُر امن طریقے سے حل کیا جائے تاکہ خطے میں دائمی امن و سلامتی یقینی بن سکے’۔

انہوں نے اپنے چیرمین جناب میرواعظ ڈاکٹرمولوی محمد عمر فاروق کو ایک بارپھر انتظامیہ کی جانب سے گھر میں نظر بند کئے جانے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا: ‘جناب میرواعظ کو نظر بند کرکے مزار شہداء نقشبند صاحب میں انکی حاضری اور شہداءکو خراج عقیدت اور فاتحہ خوانی سے روک دیا گیا جبکہ برسوں سے یہ روایت رہی ہے کہ اس دن قیادت اور عوام مزار شہداءپر جاکرشہداءکو نذرانہ عقیدت پیش کرتے تھے لیکن کئی برسوں سے سرکاری سطح پر پابندیاں عائد کئے جانے سے ان تقریبات کے انعقاد کو ناممکن بنا دیا گیا۔