شمالی بھارت

مسلم قانون ماقبل شادی جنسی تعلقات کو تسلیم نہیں کرتا:الٰہ آباد ہائیکورٹ

بنچ نے کہاکہ قرآن کے مطابق اس طرح کے جرم کی سزا (باب 24) زنا کا ارتکاب کرنے والے غیرشادی شدہ مرد اور عورت کے لیے 100 کوڑے ہیں، جب کہ شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے سنگسار کرنا اس کی سزا ہے۔

الٰہ آباد: پولیس کی جانب سے مبینہ ہراسانی کے خلاف ایک بین المذاہب جوڑے کی طرف سے دائر کی گئی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے الٰہ آباد ہائی کورٹ نے حال ہی میں کہا کہ اسلام میں شادی سے قبل کوئی بھی جنسی شہوت انگیز حرکت جیسے بوسہ لینا، چھونا یا گھورنا وغیرہ ممنوع ہے۔

متعلقہ خبریں
وضوخانے کا سروے، انجمن انتظامیہ کو نوٹس
بچہ کی جنس کا پتا چلانے بیوی کا پیٹ چیرنے والے شخص کو سخت سزا
عورت کا حق میراث اور اسلام
سپریم کورٹ کا تلنگانہ ہائیکورٹ کے فیصلہ کو چالینج کردہ عرضی پر سماعت سے اتفاق
15سالہ زوجہ کے ساتھ جسمانی تعلق عصمت ریزی نہیں: دہلی ہائیکورٹ

 یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ جوڑے / درخواست گزاروں (ایک 29 سالہ ہندو خاتون اور ایک 30 سالہ مسلم مرد) نے مستقبل قریب میں شادی کرنے پر رضامندی ظاہر نہیں کی تھی، جسٹس سنگیتا چندرا اور جسٹس نریندر کمار جوہری پر مشتمل بنچ نے مزید کہا کہ مسلم قانون میں شادی کے علاوہ جنسی تعلقات کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

بنچ نے کہا کہ زنا جس کی تعریف ماقبل شادی ازدواجی تعلق اور مابعد شادی جنسی تعلقات کے طور پر کی گئی ہے، اسے اکثر انگریزی میں زنا کے طور پر ترجمہ کیا جاتا ہے۔

 اسلام میں اس طرح کے جنسی تعلقات کی شادی سے پہلے اجازت نہیں ہے۔ بوسہ لینا، چھونا، گھورنا وغیرہ حرام ہے، کیوں کہ یہ زنا کے حصے سمجھے جاتے ہیں، جو اصل زنا کا باعث بن سکتے ہیں۔

 بنچ نے کہاکہ قرآن کے مطابق اس طرح کے جرم کی سزا (باب 24) زنا کا ارتکاب کرنے والے غیرشادی شدہ مرد اور عورت کے لیے 100 کوڑے ہیں، جب کہ شادی شدہ مرد اور عورت کے لیے سنگسار کرنا اس کی سزا ہے۔

 ڈویژن بنچ نے اس بین مذہبی جوڑے کی طرف سے دائر کی گئی (پولیس کی ہراسانی کے خلاف) تحفظ کی درخواست کی یکسوئی کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا۔

اس درخواست میں الزام لگایا گیا تھا کہ لڑکی کی ماں لیو اِن ریلیشن شپ سے ناراض ہے اور جوڑے کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی تھی۔ درخواست گزاروں نے اپنی درخواست میں بنیادی طور پر دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ انھیں پولیس کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔

 اس لیے انھیں عدالت کی طرف سے تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے، کیوں کہ ان کا معاملہ لتا سنگھ بمقابلہ ریاست اترپردیش (2006ء) کے معاملہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے ساتھ مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے۔

 اس پر عدالت نے ابتداء میں کہا کہ لیو اِن تعلقات سے متعلق سپریم کورٹ کے خیالات کو ایسے تعلقات کو فروغ دینے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

 عدالت نے حوالہ دیا کہ سپریم کورٹ نے یہ بھی فیصلہ صادر کیا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 125 ”دوسری عورت“ کو نان و نفقہ دینے کے لیے نہیں ہے، جب کہ اس شخص نے قانونی طور پر کسی عورت کے ساتھ شادی کی ہو اگر وہ دوسری مرتبہ شادی کرتا ہے یا بیک وقت کسی لونڈی کے ساتھ رہنا شروع کرتا ہے۔

 ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ عدالت ِ عظمیٰ نے ضابطہئ فوجداری کی دفعہ 125 میں بیان کردہ لفظ بیوی کے معنی میں مزید توسیع کرنے سے انکار کردیا ہے، تاکہ ایسے لیو اِن پاٹنرس کے نان و نفقہ کے دعوؤں کی یکسوئی کی جائے۔

a3w
a3w